رسائی کے لنکس

سندھ ہائی کورٹ: پروین رحمان قتل کیس کے ملزمان کی سزائیں کالعدم، رہائی کا حکم


فائل فوَٹو
فائل فوَٹو

سندھ ہائی کورٹ نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سابق سربراہ پروین رحمان کے قتل کیس میں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئےان کی سزائیں کالعدم قرار دے دی ہیں۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ملزم رحیم سواتی، امجد حسین، ایاز سواتی اور احمد حسین کو دسمبر 2021 میں دو دو بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

ملزمان نےانسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے ملنے والی سزا کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔

پیر کو سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے سنائی جانے والی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ اگر ملزمان دیگر کیسز میں مطلوب نہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔

سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپنے 38 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا ہے کہ پروین رحمان قتل کیس پراسکیوشن یعنی سرکاری وکلاٗ کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے۔ جائے وقوعہ سے ملنے والی گولیوں کے خول ملزمان کے ہتھیار سے میچ نہیں ہوئے۔

اسی طرح ملزمان کا قاری بلال سے کوئی تعلق بھی ثابت نہیں کیا جا سکا جس کے بارے میں پولیس کا دعویٰ تھا کہ پروین رحمان کو قتل کرنے والا اصل ملزم قاری بلال ہی تھا جس کا تعلق تحریکِ طالبان پاکستان [ٹی ٹی پی] سے تھا۔

پولیس نے پروین رحمان کے قتل کے اگلے روز منگھو پیر کے علاقے میں ہی ایک مقابلے میں قاری بلال کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اس کیس میں پولیس کے مطابق مرکزی ملزم قاری بلال کا قریبی ساتھی رحیم سواتی مئی 2016 میں گرفتار ہوا تھا۔ تاہم جسٹس کے کے آغا اور جسٹس ذوالفقار علی سانگی پر مشتمل ینچ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ پراسکیوشن نے قاری بلال اور رحیم سواتی کے تعلق سے متعلق کوئی تحقیقات نہیں کی لہذا پولیس کے دعوے کی کوئی حثیت نہیں ہے۔

خیال رہے کہ پروین رحمان قتل کیس کی تحقیقات کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر دو بار جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھِی۔ لیکن عدالت کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹس کی حیثیت کیس کے چالان سے زیادہ کی نہیں ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں جو چیزیں بتائی گئیں وہ پہلے ہی منظر عام پر آچکی تھیں اس لیے محض جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر عدالت کسی ملزم کی سزا یا بے گناہی کا فیصلہ نہیں کرسکتی۔

سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کاروائی تک مکمل نہیں کی گئی۔ گرفتار ملزمان پر قتل میں معاونت کے الزامات کسی طرح دستیاب شواہد سے ثابت نہیں ہوتے۔

عدالت نے ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ کیس میں ایک نہیں کئی شکوک وشبہات پائے گئے ہیں۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کو دی گئی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا۔

پروین رحمان کو 13 مارچ 2013 کو کراچی کے علاقے قصبہ کالونی موڑ پر پیرآباد تھانے کی حدود میں اس وقت دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار افراد نے قتل کردیا تھا جب وہ اپنے دفتر سے گھر جارہی تھیں۔ وہ تقریبا بیس سال سے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہی تھیں۔

عدالتی فیصلے میں مقتولہ کے اس ٹی وی انٹرویو کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے 2011 میں دیا تھا اور اس میں انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کی مقامی قیادت پر دھمکیاں دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم عدالت کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود رحیم سواتی کو سرکاری وکلاٗ کسی بھی پارٹی کا کارکن ظاہر کرنے میں بھی ناکام رہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ پروین رحمان کا یہ انٹرویو بطور گواہی قابل قبول ثبوت نہیں۔ کیوں کہ اس میں کسی پر خصوصی طور پر الزام عائد کرنے کے بجائے عمومی نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ عدالت کے مطابق مقتولہ کا وہ انٹرویو کراچی کی امن و امان کی صورتِ حال کو مد نظر رکھ کر ان کی ذاتی رائے کی بنیاد پر تھا۔

'فیصلہ ناانصافی پر مبنی ہے'

مقتولہ پروین رحمان کی بہن اور کیس میں مدعی عقیلہ اسماعیل نے ملزمان کی رہائی کے فیصلے کو ناانصافی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہ کیس میں گرفتار ملزمان کی رہائی کی صورت میں پروین رحمان کے خاندان اور اورنگی پائلٹ پراجیکٹ میں کام کرنے والے ملازمین کی جانوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ملزمان کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر [ایم پی او] کے تحت نظر بند رکھا جائے۔

عقیلہ اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ اس کیس میں ملزمان اور بالخصوص مرکزی ملزم رحیم سواتی کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ جو پروین رحمان کو براہِ راست دھمکیاں دیتا رہا ہے۔

ان کے بقول حکومتِ سندھ کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فوری طور پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنی چاہیے۔

پروین رحمان کی بہن کا کہنا تھا کہ ریاست ایسے کیسز کی مکمل چھان بین کرے کیوں کہ ایسے پرتشدد کیسز میں بھی مقتول کے خاندانوں کو انصاف نہیں ملتا۔

پروین رحمان کون تھیں؟

پروین رحمان سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں 22 جنوری سنہ 1957 کو پیدا ہوئیں اور پھر سقوط ڈھاکہ کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آگئیں۔

پروین رحمان نے کراچی کے داؤد کالج آف انجینئیرنگ سے آرکیٹیکچر کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہرمیں غریب طبقات کے لیے ہاوسنگ پر کام کرنے لگیں۔

انہوں نے کراچی کی کچی آبادیوں میں رہنے والے افراد کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم اورنگی پائلٹ پروجیکٹ (او پی پی ) میں ملازمت اختیار کی اور پھر ساری عمر اسی ادارے اور کام سے منسلک رہیں۔ اس دوران پروین رحمان نے شہر میں بے ہنگم ترقی، پانی کی چوری اورسرکاری زمینوں پر تجاوزات پر کام کیا اور انہیں دستاویزی شکل دی۔ انہوں نے متوسط طبقے سے جُڑے افراد کے لیے تعلیم، پانی اور بہتر ہاؤسنگ کی اسکیمز پر کام کیا۔

XS
SM
MD
LG