پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے انتخابات میں سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی 12 میں سے 10 نشستیں اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
پیپلزپارٹی نے سندھ سے سینیٹ کی سات میں سے پانچ عام نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ کامیاب قرار پانے والوں میں حکمران جماعت کے راہنما اور موجودہ چئیرمین سینیٹ میاں رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو،نواز کھوکھر، محمد علی جاموٹ اور امام الدین شوقین شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی نےٹیکنوکریٹس کی دونوں نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کرلی۔ پی پی پی امیدوار ڈاکٹر سکندر مہندرو اور رخسانہ زبیری ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوگئے ہیں۔ اسی طرح اقلیتی نشست پر پیپلزپارٹی کے انور لال ڈین 100 ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوگئے جبکہ خواتین کی مخصوص دونوں نشستوں پر پیپلزپارٹی کی کرشنا کماری اور قرۃ العین مری کامیاب قرار پائیں۔
دوسری جانب سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیوایم پاکستان فقط ایک نشست ہی جیت سکی۔ بیرسٹر فروغ نسیم سینیٹ کی عام نشست پر پارٹی کے کامیاب قرار پائے۔ اس طرح ان انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان بھی اسی جماعت کو اٹھانا پڑا۔
اسمبلی ریکارڈ کے مطابق ایم کیو ایم کے 51 ارکان تھے۔ لیکن بعض ارکان کی پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت، آپس کے اختلافات اور پھر پارٹی پالیسی کے خلاف پیپلز پارٹی امیدواروں کو ووٹ دینے پر پارٹی کو ایک اور یقینی نشست سے ہاتھ دھونا پڑے۔
دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی کی حمایت سے مسلم لیگ فنکشنل لیگ کے امیدوار مظفر حسین شاہ سینیٹ کی جنرل نشستوں پر کامیاب ہوگئے لیکن پاک سرزمین پارٹی اپنے نامزد کردہ کسی امیدوار کو کامیاب قرار نہ دلا سکی۔
سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مرتضی وہاب، ایاز مہر جبکہ ایم کیو ایم میں دھڑے بندی کا سبب بننے والے کامران ٹیسوری سمیت 21 امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح سینیٹ انتخابات میں پاک سر زمین پارٹی، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف صوبے میں دوڑ سے باہر ہوگئی۔
انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے الزام عائد کیا کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ ان کے بقول انتخابات غیر شفاف اور جانبدارنہ تھے جس میں ان کی پارٹی کی بعض خواتین ووٹرز کو ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے کے لئے مجبور کیا گیا۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے برملا کہا کہ ان کی جماعت کے چھ ارکان نے اپنا ضمیر بیچ کر ووٹ ڈالے۔ ایم کیو ایم راہنماوں نے پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف تنظیمی کارروائی کا بھی عندیہ دیا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کی کم از کم دو خواتین اراکین نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے اپنا ووٹ ایم کیو ایم کے بجائے اپنے ـ ضمیرـ کی آواز پر دوسری جماعت کو ڈالا۔ ان اراکین اسمبلی میں شازیہ فاروق اور نائلہ لطیف شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے اپنے ویڈیو بیانات میں ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں دھڑے بندی سے تنگ آکر انہوں نے غصے میں اپنا ووٹ دوسری جماعت کو دیا۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی راہنما سعید غنی نے ان الزمات کی سختی سے تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات میں پیسہ چلا اور نہ ہی ہارس ٹریڈنگ کی گئی۔ ان کے بقول پیپلز پارٹی کو عددی اکثریت حاصل تھی اور اسے ایسا کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اگر کسی نے دوسری جماعت کے رکن نے پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈالا ہے تو وہ ضمیر کی آواز پر کاسٹ کیا۔ انہیں ووٹ پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈالنے پر کسی نے مجبور نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی ایوان میں 94 ارکان کے ساتھ 10 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق سندھ اسمبلی کے 168 ارکان میں سے 161 نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔