پاکستان کے ایوان بالا 'سینیٹ' کی 52 نشستوں پر ہفتہ کو ہونے والے انتخاب کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں جس کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ جب کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو برتری حاصل ہوئی ہے۔
انتخاب کے لیے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازوں نے ہفتہ کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ پولنگ کا عمل صبح نو بجے شروع ہوا جو بغیر کسی وقفے کے سہ پہر چار بجے تک جاری رہا۔
یہ نشستیں اراکین کی رکنیت کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے خالی ہو رہی ہیں۔ 52 نشستوں کے لیے کل 133 امیدوار میدان میں ہیں۔
پنجاب اور سندھ سے 12، 12 خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے 11، 11، فاٹا سے چار اور اسلام آباد سے سینیٹ کی دو نشستوں کے لیے انتخاب ہوا۔
اب سے کچھ دیر قبل تک پنجاب سے سینیٹ کی 12 میں سے 11 نشستیں مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدواروں نے حاصل کی تھیں جب کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سات امیدوار کامیاب ہو چکے تھے۔
اسلام آباد سے سینیٹ کی دو نشستوں پر بھی مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔
قبائلی علاقوں سے سینیٹ کی چار نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے ہیں۔
مرکز میں قومی اسمبلی ہال کو پولنگ اسٹیشن قرار دیا گیا جہاں پہلا ووٹ اسپیکر ایاز صادق نے ڈالا۔ حکومت اور حزب مخالف کے قانون ساز بھی باری باری اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے ایوان میں آتے رہے جب کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بعد از دوپہر قومی اسمبلی میں آکر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی قومی اسمبلی کے رکن ہیں لیکن ان کی جماعت کے ایک سینیئر راہنما شفقت محمود نے صحافیوں کو بتایا کہ اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے عمران خان ووٹ ڈالنے نہیں آئے۔
ایسے میں امیدواروں کی طرف سے قانون سازوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مبینہ طور پر رقوم استعمال کرنے کی شکایتیں بھی سامنے آتی رہیں۔
قبائلی علاقوں سے حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ایک قانون ساز شہاب الدین نے بھی ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے سینیٹ الیکشن کا بائیکاٹ کیا جب کہ تحریک انصاف کے راہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہو رہا ہے تو یہ قانون سازوں کے وقار کے منافی ہے اور ایسے لوگ نظام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
تاہم ان دعوؤں سے متعلق تاحال کوئی مصدقہ معلومات نہیں آئی ہیں۔
یہ انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق کوئی ووٹر نہ تو اپنا ووٹ ظاہر کرے گا اور نہ ہی وہ اپنے بیلٹ پییر کو پولنگ اسٹیشن سے باہر لے جائے گا۔ ایسا کرنے کی صورت میں ریٹرننگ افسر ایسے ووٹر کے بیلٹ پیپر کو منسوخ کر دے گا۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی سربراہی کے لیے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد اس جماعت کے تمام امیدواروں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا۔