پاکستان کے جنوب مغربی صوبہٴ بلوچستان میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات کے بعد سیکورٹی فورسز نے بھی اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی ہے اور ہفتے کو ایک کارروائی کے دوران ایک دہشت گرد ہلاک جبکہ سات کو گرفتار کر لیا گیا۔
فوج کے شعبہٴ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقوں غلام پڑنگ اور کلی کُنگر میں بے گناہ لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے اور معصوم لوگوں پر دستی بموں کے حملے کرنے والے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف فرنٹیر کور بلوچستان نے ’آپریشن رد الفساد‘ کے سلسلے میں کارروائیاں کی ہیں۔
کارروائی کے دوران، ایک دہشت گرد ہلاک اور سات کو حراست میں لیا گیا، جن کو تفتیشی اداروں کے حوالے کیا گیا ہے جو حراست میں لئے گئے افراد سے گزشتہ دو دنوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کے بارے میں تفتیش کریں گے۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ ان ٹھکانوں سے بڑی مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔
بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان رینجرز پنجاب، پولیس اور خفیہ اداروں کے اہل کاروں نے مشترکہ طور پر پنجاب کے مختلف علاقوں ڈیرہ غازیخان، اٹک، اسلام آباد اور لاہور میں گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران کاروائیاں کیں، اور 19 دہشتگردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو حراست میں لے لیا گیا؛ اور بڑی مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود بھی برآمد کر لیا گیا۔
بلوچستان کے دو اضلاع گوادر اور مستونگ میں گزشتہ رات دستی بموں کے دو حملوں میں 40 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے، جبکہ ایک روز پہلے کوئٹہ کے نواحی علاقے میں پولیس کی ’رپیڈ رسپانس فورس‘ پر خودکش حملے میں 8 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔
اس کے بعد، جمعے کو علی الصبح فرنٹیر کور بلوچستان کی جانب سے ضلع مستونگ میں آپریشن کیا گیا، جس میں اب تک صرف ایک دہشت گرد کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد حکام کو سیکورٹی مزید سخت کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ اُن کے بقول، ’’قوم پرستوں کی تو ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کمر توڑ دی ہے۔ اب ہمیں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے حوالے سے مسئلہ درپیش ہے، اُن کے پیچھے بھی ہم لگے ہوئے ہیں اور جلد خاتمہ کردیں گے۔‘‘
قدرتی وسائل سے مالامال اس جنوب مغربی صوبے میں گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے بلوچ قوم پرست کالعدم تنظیمیں سیکورٹی فورسز، قومی تنصیبات اور دوسرے صوبوں سے آنے والوں کو، جبکہ بعض کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیموں کے اہل کار شیعہ برادری اور قانون نافذ کرنے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بناتی ہیں، جس میں اب تک سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت ہزاروں شہری بھی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔