پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کی حکومت سے ہزارہ برادری کو ہدف بنا کر قتل کیے جانے کی وارداتوں کے بارے میں جواب طلب کیا ہے۔
مرکزی شہر کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ اور ہزار ٹاؤن میں آباد ہزارہ برادری شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے جو تقریباً گزشتہ دو دہائیوں سے مہلک حملوں اور ہدف بنا کر قتل کی وارداتوں کا شکار چلی آ رہی ہے۔
گزشتہ سال اگست میں کوئٹہ کے سول اسپتال کے باہر ہونے والے خود کش حملے سے متعلق معاملے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ہزارہ برادری کے نمائندوں کی طرف سے دائر ایک درخواست کو زیر غیر لاتے ہوئے بلوچستان حکومت سے اس برادری کے خلاف ہونے والے حملوں پر جواب طلب کیا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ہزارہ برادری کو سلامتی کے سنگین خطرات لاحق ہیں اور حتیٰکہ ایران جانے والے زائرین کو بھی دہشت گرد نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے، لہذا حکومت کو ہدایت کی جائے کہ وہ اس برادری کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدام کرے۔
حالیہ برسوں میں اس برادری پر کئی ایک بڑے مہلک حملے ہو چکے ہیں جن میں ایک ہی واقعے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے اور اس برادری کی طرف سے مرنے والوں کی لاشوں کو کئی روز تک سڑک پر رکھ کر احتجاج بھی کیا گیا۔
علاوہ ازیں ایسے کئی واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس میں ہزارہ برادری کے سبزی فروشوں کو اس وقت ہدف بنا کر قتل کر دیا گیا جب انھوں نے سامان کی خریداری کے لیے اپنے علاقوں سے باہر کا رخ کیا۔
تازہ ترین واقعہ رواں ماہ کے اوائل میں پیش آیا جہاں کوئٹہ کے علاقے کاسی روڈ پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے سبزی منڈی جانے والے ہزارہ برادری کے افراد کی گاڑی پر فائرنگ کر دی جس سے پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی فاطمہ عاطف ایک عرصے سے اپنی برادری کو درپیش سلامتی کے خطرات پر آواز بلند کرتی آ رہی ہیں۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے سکیورٹی کے اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
"یہ دہشت گرد ہوا سے تو نہیں آتے، اسی ملک میں رہتے ہیں وہ اپنی ساری منصوبہ بندی کرتے ہیں یقیناً کمیونیکیٹ بھی کرتے ہوں گے تو یہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں یا جو سکیورٹی فورسز کے ادارے ہیں وہ ان کو پکڑنے میں ناکام کیوں رہے ہیں اب تک۔"
بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ہزارہ برادری کے لیے کیے جانے والے اقدام کی وجہ سے ماضی کی نسبت ان کے خلاف ہونے والے مہلک واقعات میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادی کے علاقوں کے داخلی و خارجی راستوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے اور زیارات کے لیے جانے والے زائرین کو بھی ایران کی سرحد تک پولیس اور فرنیئر کور کے اہلکاروں کی حفاظت میں لے جایا اور واپس لایا جاتا ہے۔
"باقی جو ان کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہیں اس کے لیے ہم انٹیلی جنس کی معلومات پر آپریشن کرتے رہتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں جو معلومات آتی ہے اس پر ہم ایکشن لیتے ہیں۔"
تاہم فاطمہ عاطف کا کہنا ہے کہ ہزارہ برادری اسی وقت خود کو محفوظ تصور کرے گی جب وہ پہلے کی طرح آزدانہ نقل و حرکت کر سکے گی۔
"ہمارا اعتماد سکیورٹی کے حساب سے اسی وقت بحال ہو گا جب ہر مہینے جو لاشوں کے تحفے ہمیں ملتے ہیں یہ ملنا بند ہو جائیں گے، ہم آزادانہ گھوم پھر سکیں گے، تجارت کر سکیں گے، سبزی فروش سے کسی کو کیا خطرہ ہے اب ان کی شامت آئی ہوئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو دن کو کما کر نہ لائیں تو رات کو ان کے بچے بھوکے سوتے ہیں، ہزارہ ایک پرامن برادری ہے ان کو مار کے کسی کو کیا ملتا ہے۔"
صوبائی حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ وہ ہزارہ برادی کی تشویش اور تحفظات سے آگاہ ہیں اور بلوچستان حکومت اس برادری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کو یقینی بنائے گی۔