رسائی کے لنکس

امریکی اور چینی صدور کے براہ راست رابطے کا کوئی متبادل نہیں، بلنکن


امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن، چینی صدر شی سے مصافحہ کرتے ہوئے۔ فوٹو اے پی۔ 19 جون 2023
امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن، چینی صدر شی سے مصافحہ کرتے ہوئے۔ فوٹو اے پی۔ 19 جون 2023

امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ چین کا ان کا دورہ، امریکہ ۔ چین تعلقات میں کسی قدر استحکام کی شروعات ثابت ہوگا اور سربراہانِ مملکت سمیت اعلیٰ سطحی رابطے بڑھیں گے۔

امریکی ٹی وی چینل اے بی سی کے پروگرام " گڈ مارننگ امیریکہ " میں لندن سے ایک انٹرویو کے دوران وزیرِ خارجہ بلنکن نے میزبان جارج اسٹیفناپلس کو بتایا کہ صدر بائیڈن بھی محسوس کرتے ہیں کہ چین اور امریکہ دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تعلقات میں ذمے داری کا مظاہرہ کریں ۔ اور یہ کہ ان کے دورے کا مقصد رابطے کے ایسے ذرائع تلاش کرنا تھا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان حقیقی اختلافات پر اعلیٰ حکومتی سطح پربات کی جا سکے اور دیکھا جائے کہ کن امور پر باہم تعاون کیا جا سکتا ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن لندن کے دورے پر۔ فوٹو رائٹرز 20 جون 2023
امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن لندن کے دورے پر۔ فوٹو رائٹرز 20 جون 2023

اس سوال کے جواب میں کہ چینی صدر شی نے کہا ہے کہ کچھ خاص امور پر نئے سمجھوتے ہوئے ہیں، بلنکن نے کہا کہ ہم نے اختلافات اور ان نکات پر جہاں ہم باہم تعاون کر سکتے ہیں، بہت کھل کر گفتگو کی ہے اور متعدد امور پر دونوں ملک کام کر رہے ہیں اس لیے وہ ان کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہنا چاہیں گے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک معاملہ نشہ آور دوا فینٹانل کا ہے جس کا استعمال 18 سے49 برس کے امریکیوں میں موت کا ایک بڑا سبب ہے اور اس مسئلے کا ایک بڑا حصہ یہ ہے کہ فینٹانل میں استعمال ہونے والا کیمیکل چین میں تیار ہوتا ہے اور وہاں سے میکسیکو جاتا ہے، اس سے فینٹانل تیار ہوتا ہے۔۔۔امریکہ پہنچتا ہے اور بہت سے امریکیوں کی موت کا سبب بنتا ہے۔

چنانچہ انہوں نے کہا،"ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ایک ورکنگ گروپ بنایا جائے جو اس معاملے میں تعاون کو ممکن بنائے "

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کے دورہ چین کے دوران فریقین نے کوشش کی کہ ایسے میں جب دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے، کوئی ایسا طریقہ کار وضع کر لیا جائے جو سلامتی اور تحفظ سے متعلق ہو مگر بظاہر بات صرف وعدوں تک ہی محدود رہی۔

جیسا کہ سیکریٹری بلنکن نے خود تصدیق کی کہ چین نے فی الحال فوجی سطح پر رابطوں کے کسی نیٹ ورک پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔

امریکی چینل اے بی سی کے ساتھ انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہ آیا چین کے ساتھ یو کرین کے بارے میں بات ہوئی اور کیا چین نے یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ یوکرین کے خلاف روس کو مہلک ہتھیار فراہم نہیں کرے گا، بلنکن نے کہا کہ چین نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے بہت سے دیگر ملکوں کو بھی جو اس پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے، یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ نہ تو اس وقت روس کو ایسا کچھ فراہم کر رہے ہیں اور نہ آئندہ کریں گے۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی کے درمیان آئندہ کسی ملاقات کے امکان پر بات کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا، ان کے اپنے دورے سمیت یہ ایک مسلسل عمل ہے اور آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں مزید اعلیٰ سطحی رابطے ہوں گے اور ان کے کچھ رفقاء کار چین جائیں گے اور چینی عہدیدار امریکہ آئیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب چن گانگ کو بھی دورے کی دعوت دی ہے جو انہوں نے قبول کر لی ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے سربراہوں کے باہم رابطے کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا چنانچہ وہ امید کرتے ہیں کہ آئندہ مہینوں میں وہ ایسا ہوتا دیکھ پائیں گے کیونکہ صدر بائیڈن اور صدر شی کے درمیان بات چیت بے حد اہمیت رکھتی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق شی اور بائیڈن ایک دوسرے کو اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ دونوں نائب صدر تھے۔ سربراہانِ مملکت کے طور پر پہلی مرتبہ ان کی ملاقات نومبر میں بالی میں ہوئی تھی جہاں دونوں رہنماؤں نے باہمی کشیدگیوں پر نظر رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

( اس خبر میں کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG