رسائی کے لنکس

'امریکہ یا چین میں سے کسی ایک کو چنیں، ہم ایسا مطالبہ نہیں کرتے'


امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن ۔ فائل فوٹو
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن ۔ فائل فوٹو

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ کسی ملک سے ایسا مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ امریکہ یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ ہونے کا اعلان کرے، لیکن وہ ان فوائد کو واضح کرنا چاہتا ہے، جو امریکہ کی پارٹنرشپ سےحاصل ہو سکتے ہیں۔ بلنکن نے یہ بات جمعرات کو سعودی عرب کے دورے کے دوران کہی۔

اس دوران سعودی عرب کےوزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور چین کے تعلقات میں 'توسیع ممکن ہے'۔

بلنکن نے ریاض میں اپنے سعودی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ امریکہ بدستور 'خلیج فارس خطے کے زیادہ تر ملکوں کے لئے ' اولین ترجیحی پارٹنر ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے اس موقعے پر کہا کہ اگرچہ چین ان کے ملک کا سب سےبڑا تجارتی پارٹنر ہے ، ان کے ملک کی امریکہ کے ساتھ 'سیکیورٹی پارٹنرشپ' کی روزانہ کی بنیاد پر تجدید ہو رہی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب وہ جلد ہی چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ یہ دورہ اس سال فروری میں ہونا طے تھا، لیکن امریکی فضا میں مشتبہ چینی غباروں کو مار گرائے جانے کے واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں اسے ملتوی کر دیا گیا۔

اس ہفتے چین میں امریکہ کے سفیر نکولس برنز نے وہائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کےمشیر جیک سلیون کا یہ جملہ ٹویٹ کیا ہے کہ امریکہ کو 'امید ہے کہ چین سٹریٹیجک نیوکلئیر معاملات پر ٹھوس پیش رفت پر تیار ہو جائے گا'۔

برنز کی جانب سے جون کی بارہ اور سولہ تاریخ کو واشنگٹن ڈی سی کے دو تھنک ٹینکس میں ہونے والے دو اہم ایونٹس کو ملتوی کیا گیا ہے ۔ایک امریکی عہدیدار نے اس بات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا کہ ان دونوں ایونٹس کا ملتوی کیا جانا امریکی وزیر خارجہ کے ممکنہ دورہ چین سے منسلک ہے۔

اس ہفتے کے شروع میں وائس آف امریکہ نے محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل سے ایک پریس بریفنگ کے دوران سوال کیا تھا کہ کیا واشنگٹن کو ایسامحسوس ہورہا ہے کہ چین دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کو تیار ہے؟ ،

جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ 'بین الاقوامی برادری ہم سے توقع کرتی ہے کہ ہم عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اپنے معاملات کو ذمہ داری سے لے کر چلیں، چاہے اس کا تعلق ماحولیاتی بحران سے ہوا، یا خلیج تائیوان کی تجارتی گزرگاہ سے' ۔

ادھر بیجنگ میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے بدھ کو ایک نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکہ کو چین کا احترام کرنا ہوگا ، خصوصا ان معاملات پر جنہیں چین اپنے مفادات کے لئے اہم سمجھتا ہے یا جن کے بارے میں اسے تشویش ہے۔چینی ترجمان نے زور دے کر کہا کہ واشنگٹن کو ایک طرف سے رابطےبڑھانے کا مطالبہ کرنے اور دوسری طرف سے جارحانہ انداز اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

بلکن کے دورہ چین کی تفصیلات ابھی واضح نہیں تاہم فنانشل ٹائمز نے اطلاع دی تھی کہ یہ دورہ اسی ماہ کے دوران ہوسکتا ہے۔

پیر کے روز محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے ایک بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ "جب حالات اجازت دیںگے"امریکہ اس دورے کو دوبارہ شیڈول کرنے کا منتظر ہے۔

چین کے انگریزی کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے تبصرہ نگار Hu Xijin نے اس دورے کے بارے میں اطلاعات پر اپنے تبصرے میں لکھا ہے ہے،’بلنکن کا چین کا دورہ، اگر یہ دراصل ہوتا ہے، تو یہ ایک علامتی پیغام ہوگا، لیکن یہ مستحکم نہیں ہے اور امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے جامع اور گہرے تناؤ کو متوازن کرنے کےلیے اس سے کچھ نہیں ہوگا۔‘

محکمہ خارجہ کے مشرقی ایشیا کے لیے اعلیٰ عہدیدار، ڈینیئل کرٹن برنک، اور چین کے لیے قومی سلامتی کونسل کی سینیئر ڈائریکٹر سارہ بیرن، اس ہفتے کے شروع میں چین میں تھے، جسے پٹیل نے چینی حکام کے ساتھ "صاف گوئی پر مبنی اور نتیجہ خیز بات چیت" سے تعبیر کیا۔

دنیا کی دو بڑی معیشتوں امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات حالیہ مہینوں میں تجارت، ٹیکنالوجی اور علاقائی سلامتی کے کئی معاملات کی وجہ سے کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ لیکن چین کے لئے امریکی زرعی اجناس کی برآمد میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کے مطابق، چین امریکہ کی زرعی اجناس کی سب سے بڑی منڈی ہے۔

XS
SM
MD
LG