رسائی کے لنکس

فارن فنڈنگ کیس: تحریک انصاف نے 53 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات خفیہ رکھیں، رپورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسکروٹنی کمیٹی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے فارن فنڈنگ کیس سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی، رپورٹ میں 53 بینک اکاؤنٹس چھپانے کا انکشاف ہوا ہے۔

منگل کو اس معاملے پر چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں اسکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ الیکشن کمیشن کے روبرو پیش کی۔

البتہ پاکستان تحریکِ انصاف نے اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آنے تک پی ٹی آئی کی رپورٹ خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے اگرچہ باقاعدہ طور پر اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ جاری نہیں کی گئی۔ تاہم اس رپورٹ کے مندرجات میڈیا میں رپورٹ کیے جا رہے ہیں جس کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے 65 بنک اکاؤنٹس میں سے صرف 12 بینک اکاؤنٹس کے بارے میں کمیشن کو آگاہ کیا اور مبینہ طور پر 53 اکاؤنٹس چھپائے۔

منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کمیشن میں پیش کی گئی۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سوال کیا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آ گئی ہے اب بتائیں کارروائی کیسے آگے چلانی ہے۔ اس پر پی ٹی آئی کے بانی رُکن اور درخواست گزار اکبر ایس بابر نے کہا کہ کمیشن قرار دے چکا ہے کہ رپورٹ آنے پر فریقین سے جواب مانگے جائیں گے۔

پی ٹی آئی کے وکیل شاہ خاور ایڈوکیٹ نے کہا کہ مناسب ہو گا کمیشن کے حتمی فیصلے تک رپورٹ عام نہ کی جائے۔ رپورٹ صرف فریقین کو ہی دی جائے۔

انہوں نے درخواست کی کہ کم از کم پی ٹی آئی کا جواب آنے تک ہی رپورٹ خفیہ رکھی جائے، باقی پارٹیوں کی رپورٹ آ جائے تو ایک ساتھ ہی کیس سنا جائے۔

الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ فریقین کو دینے کی ہدایت کر دی۔

اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ ہم پہلے دن سے کہتے رہے ہیں کہ رپورٹ پبلک کی جائے۔ اسکروٹنی کمیٹی کی بہت سی معلومات سے لاعلم ہیں۔

کمیشن کے ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ ہم کسی کو کیسے روکیں گے کہ رپورٹ پبلک نہ کی جائے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان نے کہا کہ رپورٹ پبلک کرنے یا نہ کرنے پر فی الحال کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ کیا ہم کسی فریق کو رپورٹ پبلک کرنے سے روک سکتے ہیں؟ اس پر شاہ خاور ایڈوکیٹ نے استدعا کی کہ فریقین کے جواب آنے تک رپورٹ خفیہ رکھی جائے۔

سکندر سلطان نے سوال کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ رپورٹ میں خفیہ رکھنے والا مواد ہے؟ کیا آپ کو پہلے ہی رپورٹ کی کاپی مل چکی ہے؟

انہوں نے کہا کہ کھلی عدالت میں رپورٹ آئی ہم کیسے پابندی لگا سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کسی فریق پر رپورٹ پبلک کرنے کی پابندی نہیں لگا سکتا۔

کمیشن نے دیگر جماعتوں کے ساتھ کیس سنے جانے کی پی ٹی آئی کی درخواست پر آئندہ سماعت پر دلائل طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 18 جنوری کے لیے ملتوی کر دی۔

کیس کا بروقت فیصلہ ہوتا تو پاکستان نہ ڈوبتا، اکبر ایس بابر

سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس کیس کے مدعی اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما اکبر ایس بابر نے کہا کہ 14 اپریل 2021 کو الیکشن کمیشن نے تاریخی فیصلے میں اپنے آڈیٹرز کے ذریعے مشتبہ بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ نو اکاؤنٹس ایسے ہیں جن کے عمران خان دستخطتی تھے۔ ان نو اکاؤنٹس کو ہم سے چھپایا گیا۔

اکبر ایس بابر نے کہا کہ یہ کیس پاکستان کی بقا کا کیس ہے، اگر اس کیس کا بروقت فیصلہ ہو جاتا تو پاکستان آج نہ ڈوبتا، اگر اس کیس کا فیصلہ نہ کیا گیا تو پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔

اکبر ایس بابر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہمیں رازداری کا پابند نہیں کیا، ابھی رپورٹ پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہو گا۔ ہم رپورٹ پڑھ کر اپنی رائے الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج تک پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں (ن) لیگ کی بدعنوانی کا ثبوت پیش نہیں کیا۔ پی ٹی آئی جھوٹ بول کر چوری چھپانا چاہتی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں پاکستان کی جمہوری تاریخ کا اہم ترین مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔ تحریکِ انصاف نے دو درجن سے زائد اکاؤنٹس کی تفصیل الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائی۔

پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے خفیہ اکاؤنٹس میں پیسے کہاں سے آئے؟ اسد عمر

پاکستان تحریک انصاف کے اسد عمر اور فرخ حبیب نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی اسکروٹنی کہاں تک پہنچی؟ اسکروٹنی کمیٹی کو حکم دیا جائے کہ کارروائی جلد مکمل کی جائے۔

اسد عمر نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریخی کام کر رہا ہے، دونوں بڑی پارٹیوں کے اکاؤنٹس حفیہ نکل رہے ہیں۔ اگر شفاف انداز سے یہ کام کیا جائے تو پاکستان کی تاریخ بدل سکتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تینوں کمیٹیوں کی رپورٹس عوام کے سامنے آنی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف نے شفاف انداز میں فنڈنگ کی، ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں آگے بھی کرتے رہیں گے۔ الیکشن کمیشن بے شک کھلی عدالت میں کیس سنے ہم تیار ہیں۔

وزیرِ مملکت فرخ حبیب نے سوال کیا کہ (ن) لیگ نے نو اور پیپلز پارٹی نے 11 اکاؤنٹس خفیہ کیوں رکھے؟

'تحریک انصاف اب ریڈ زون میں آ گئی ہے'

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس وقت ریڈ زون میں داخل ہو گئی ہے۔

اُن کے بقول اس کیس کی وجہ سے اخلاقی طور پر پی ٹی آئی کو بہت زیادہ نقصان ہو گا جو ہمیشہ شفافیت کا نعرہ لگاتی رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد الیکشن کمیشن کے ممبران کسی نتیجہ پر پہنچیں گے، اگر کمیشن اسکروٹنی کمیٹی کی اس رپورٹ کی توثیق کر دیتا ہے تو اس کے بعد تمام ممنوعہ فنڈنگ کو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا۔

اُن کے بقول اگر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جائے تو الیکشن کمیشن اس سیاسی جماعت کو الاٹ شدہ انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے۔ لہذٰا پارٹی کے نشان کے تحت انتخاب جیتنے والے آزاد اراکینِ پارلیمنٹ سمجھے جائیں گے۔

کنور دلشاد کہتے ہیں کہ اگر پارٹی نشان واپس ہوا تو لامحالہ پارٹی کی رجسٹریشن پر بھی سوال اُٹھیں گے۔

کنور دلشاد کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے دوسری سیاسی جماعتوں کی بھی 10 دن میں اسکروٹنی مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے کبھی کوئی حکمِ امتناع نہیں لیا۔ لیکن پی ٹی آئی بار بار التوا طلب کرتی رہی۔

سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ شاید اس فیصلہ سے کوئی بڑا سیاسی نقصان نہ ہو لیکن اس وقت جو تبدیلی کی فضا بنی ہے جس میں افواہیں ہیں اور حکومت کے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

اُن کے بقول ایسے میں منفی فیصلہ آنا تحریکِ انصاف کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ کیونکہ رقم بہت زیادہ نہیں لہذا اس سے پی ٹی آئی کو شاید اس قدر شدید نقصان نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پہلی جماعت ہے جسے بیرون ملک سے فنڈز ملے ہیں لیکن یہ بہت حساس معاملہ ہے اور آئین و قانون میں اس کی سخت ممانعت ہے۔ لہذا پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت، انہیں اس بارے میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔

پاکستان میں جمہوریت، گورننس اور پبلک پالیسی پر تحقیق کرنے والے غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ قانونی ثبوت کیا کیا ہیں۔

اُن کے بقول ابتدائی طور پر ممنوعہ ذرائع سے آنے والی تمام فنڈنگ الیکشن کمیشن ضبط کرلے گا، لیکن اخلاقی طور پر اس کا تاثر بہت سنگین ہو گا کیونکہ یہ جماعت ہمیشہ شفافیت کی ہی بات کرتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ تیسرا مرحلہ اس کا یہ ہو گا کہ پارٹی سربراہ ہر سال ایک سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں دیتا ہے کہ ان کی تمام فنڈنگ جائز ہے۔ اگر یہ سرٹیفکیٹ ہی جھوٹا ثابت ہو گیا تو نہ صرف نااہلی ہو سکتی ہے بلکہ پارٹی کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو کیسے دیکھتا ہے اور کیا فیصلہ دیتا ہے۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ آیا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف بھی ایسا فیصلہ آ سکتا ہے کیونکہ ان کے ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے کیس الیکشن کمیشن میں زیرِ سماعت ہیں اور اس پر بھی آئندہ چند روز میں رپورٹ آ سکتی ہے۔

فارن فنڈنگ کیس ہے کیا؟

پاکستان تحریکِ انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے نومبر 2014 میں پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ لینے کے معاملے پر درخواست الیکشن کمیشن میں دائر کی تھی۔

درخواست گزار کا الزام تھا کہ تحریکِ انصاف کو بیرون ممالک سے بھاری رقوم فنڈنگ کی مد میں حاصل ہوئی۔ لیکن الیکشن کمیشن کو جو ریکارڈ فراہم کیا گیا وہ اُس رقم سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہذٰا فنڈز میں خرد برد کی گئی۔

الیکشن کمیشن نے اگست 2017 میں غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریکارڈ جمع کرانے کے لیے سات ستمبر تک کی مہلت دی تھی۔

بعد ازاں، الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس حوالے سے حکم دیا۔ جس کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے مختلف کمرشل بینکوں میں موجود کل 26 اکاؤنٹس میں سے آٹھ کو ظاہر کیا اور ان کی تفصیل الیکشن کمیشن میں عمران خان کے دستخطوں سے جمع کرائی۔

لیکن 18 اکاؤنٹس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بے نامی اکاؤنٹس تھے جن میں بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ جمع کی جاتی رہی۔ لیکن یہ فنڈنگ کہاں خرچ ہوئی اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ پاکستان کی حزبِ اختلاف انہی بے نامی اکاؤنٹس کی بنیاد پر تحریک انصاف کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کے حوالے سے اکبر ایس بابر کی طرف سے عائد کردہ تمام الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔ پارٹی رہنماؤں کا مؤقف رہا ہے کہ سیاسی مخالفین کے کہنے پر پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے یہ کیس بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار اکبر ایس بابر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ، ڈنمارک، آسٹریلیا سمیت مشرقِ وسطیٰ میں تحریک انصاف نے فنڈنگ حاصل کی۔ پانچ سالوں میں تحریک انصاف اسکروٹنی اور تحقیقات سے بھاگتی رہی۔ تحریک انصاف کا بانی رکن ہوتے ہوئے کچھ چیزیں میرے علم میں آئیں۔

رپورٹ میں کیا ہے؟

اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مندرجات فریقین کی طرف سے میڈیا کو دیے جا رہے ہیں، جن میں ابتدائی معلومات کے مطابق بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے 2008 سے 2009 کے دوران 65 میں سے صرف 12 اکاؤنٹس ظاہر کیے، پی ٹی آئی نے پانچ سال کے دوران مبینہ طور پر 32 کروڑ کی رقم چھپائی۔

اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کی 2013-2012 کی آڈٹ رپورٹ پر بھی مبینہ طور پرکوئی تاریخ درج نہیں۔ یاد رہے کہ آڈٹ رپورٹ پر تاریخ نہ ہونا اکاؤنٹنگ معیار کے خلاف ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ آڈٹ فرم کی فراہم کی گئی کیش رسیدیں بھی بینک اکاؤنٹس سے مطابقت نہیں رکھتی۔

میٖڈیا رپورٹس کے مطابق رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے پانچ سال کے دوران 32 کروڑ کی رقم چھپائی، اسکروٹنی کمیٹی کو تحریک انصاف کینیڈا اور نیوزی لینڈ کے بینک اکاؤنٹس تک بھی رسائی نہیں دی گئی۔

XS
SM
MD
LG