سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف کرپشن ریفرنس کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا بند کمرے کا اجلاس ہوا جس میں جسٹس شوکت عزیز کا مقدمہ کھلی عدالت میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
سماعت کیلئے 30 جولائی مقرر کر دی ہے؛ اور طریقہ کار کے مطابق اٹارنی جنرل کو 30 جولائی کو گواہ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تمام تر شہادتیں طلب کر لی گئیں ہیں جبکہ 30 جولائی سے سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔
یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی جج کے خلاف ریفرنس کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کرے گی۔
اجلاس کے بعد سپریم کورٹ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا جہاں سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے نئے ججوں کو خوش آمدید کہا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کا مقصد انصاف کی فراہمی اور سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کا جائزہ لینا تھا۔
چیف جسٹس نے اجلاس کے دوران عوام کو انصاف کی فراہمی میں ججوں کے کردار کی تعریف کی اور سپریم کورٹ کے انتظامی اور عدالتی امور بھی زیر بحث آئے۔
اجلاس میں ستمبر 2017 سے جون 2018 تک کے مقدمات کا جائزہ لیا گیا اور اس دوران 16 ہزار 897 مقدمات نمٹائے گئے جبکہ اس دوران مجموعی طور پر 19 ہزار 98مقدمات دائر ہوئے۔
اعلامیے کے مطابق، اس وقت سپریم کورٹ میں مجموعی طور پر 39 ہزار 317 مقدمات زیر التوا ہیں کیونکہ مقدمات دائر ہونے کی شرح میں بڑی حد تک اضافہ ہوا جو عدالت پر عوامی اعتماد کا اظہار ہے۔
چیف جسٹس نے فل کورٹ سے کیس منیجمنٹ کی حکمت عملی کو مؤثر بنانے کی تجاویز طلب کرلیں جبکہ سپریم کورٹ رولز 1980 میں ترامیم کے لیےسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تجاویز پر بھی غور کیا گیا۔
اجلاس کے دوران ترامیم کے لیے جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس سنہ 2015 میں دائر کیا گیا تھا اور ان پر اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سرکاری گھر پر تزین و آرائش کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے کا الزام ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل پانچ ارکان پر مشتمل ہوتی ہے جس میں سپریم کورٹ کے تین سنیئر ترین ججز کے علاوہ ملک کی پانچوں ہائی کورٹس کے دو سنئیر چیف جسٹس صاحبان شامل ہیں
جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان کی جانب سے دائر اوپن کورٹ ٹرائل کی درخواستوں پر مئی میں فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی انتظامی نوعیت کی ہوتی ہے عدالتی نہیں اس لیے 2005 کے قوانین کے مطابق انکوائری کا طریقہ کار درست ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ججز کے خلاف ابتدائی تحقیقات بند کمرے میں ہوں گی اور تحقیقات کا دوسرا مرحلہ جج کی خواہش کے مدنظر رکھتے ہوئے کھلی عدالت میں کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے خلاف دائر ریفرنس کو بند کمرے کے بجائے کھلی عدالت میں سننے کی استدعا کی تھی جسے سپریم جوڈیشل کونسل نے مسترد کردیا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی مختلف نوعیت کے اہم فیصلے دے چکے ہیں جن میں ختم نبوت کے معاملے پر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ عام کرنا شامل ہے، جبکہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ہیڈکواٹرز کے سامنے روڈ کھولنے سے متعلق کیس بھی ان ہی کی عدالت میں زیر سماعت ہے
چیف جسٹس ثاقب نثار ہائی کورٹ کے جسٹس صدیقی کے کئی فیصلوں کو کالعدم قرار دے چکے ہیں۔
تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران گزشتہ ماہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ماتحت عدلیہ کے قانون سے متصادم فیصلوں کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں، لیکن انہیں کسی کی تضحیک کا حق حاصل نہیں ہے۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہا تھا کہ ’’مذاق ہی بنا لیا ہے اگر کسی کا چہرہ اچھا نہیں لگتا تو اس کی تضحیک شروع کر دیں۔‘‘