رسائی کے لنکس

نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 سال قید کی سزا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عدالت نے سابق وزیرِ اعظم کی صاحب زادی مریم نواز کو سات سال قید اور 20 لاکھ پونڈ جرمانے جب کہ ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی ہے۔

اسلام آباد کی حتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحب زادی مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنادی ہے۔

احتساب عدالت نے نوازشریف کو 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی کیا ہے جب کہ لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو سرکاری تحویل میں لینے کا بھی حکم دیا ہے۔

عدالتی فیصلے کے نتیجے میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر انتخابات لڑنے کے لیے بھی نا اہل ہوگئے ہیں۔

مریم نواز 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر لاہور سے جب کہ کیپٹن (ر) صفدر مانسہرہ سے قومی اسمبلی کے حلقوں سے امیدوار تھے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کیا جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے جمعے کی شام فریقین کے وکلا کی موجودگی میں بند کمرے میں سنایا۔

فیصلہ سنائے جانے کے وقت صحافیوں کو عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

فیصلے سنائے جانے کے بعد نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کمرۂ عدالت سے باہر آکر صحافیوں کو فیصلے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے صحافیوں بتایا کہ مقدمے کے دیگر دو شریک ملزمان اور نواز شریف کے صاحبزادوں - حسن اور حسین نواز - کو اشتہاری قرار دیے جانے کی وجہ سے سزا نہیں سنائی گئی۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت کے دوران حسن اور حسین نواز کو مسلسل عدم حاضری پر اشتہاری قرار دے دیا تھا۔ نواز شریف کے دونوں صاحب زادے بھی لندن میں مقیم ہیں۔

اس سے قبل عدالت نے فیصلے کے اعلان کو سات روز تک موخر کرنے کی نواز شریف اور مریم نواز کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے جمعے کو دن 12:30 بجے فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن فیصلے کا اعلان کئی بار تاخیر کا شکار ہوا اور عدالت کی جانب سے بار بار فیصلے کا وقت تبدیل کیا گیا. بالآخر شام سوا چار بجے کے قریب فیصلہ سامنے آیا۔

نواز شریف اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے گزشتہ کئی ہفتوں سے لندن میں مقیم ہیں جہاں ان کے ہمراہ ان کی صاحب زادی مریم نواز بھی ہیں۔

تاحال یہ واضح نہیں کہ وہ سزا سنائے جانے کے بعد وطن واپس آئیں گے یا نہیں۔

کیپٹن (ر) صفدر پاکستان میں ہی موجود ہیں لیکن وہ جمعے کی سماعت کے موقع پر عدالت نہیں آئے۔

ایون فیلڈ کی سماعت اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ساڑھے نو ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہی تھی۔

فریقین کے حتمی دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے 3 جولائی کو اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اسے جمعے کو سنانے کا اعلان کیا تھا۔

اس اعلان کے بعد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے احتساب عدالت سے فیصلے کا اعلان ایک ہفتے کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی۔

درخواستوں میں سابق وزیرِ اعظم اور ان کی صاحبزادی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جس وقت فیصلہ سنایا جائے وہ خود عدالت میں موجود ہوں۔

جمعے کو جب احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت شروع کی تو مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کے سامنے لندن میں زیرِ علاج نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی نئی میڈیکل رپورٹ پیش کی۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کلثوم نواز کی حالت تشویش ناک ہے اور ڈاکٹروں نے ان کے اہلِ خانہ کو ان کے قریب ہی رہنے کا کہا ہے۔

امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کو فیصلہ ملزم کی موجودگی میں سنانا چاہیے اور ان کے مؤکلین بھی چاہتے ہیں کہ فیصلہ سنائے جانے کے وقت وہ کمرۂ عدالت میں موجود ہوں۔

وکیلِ صفائی کے اس مؤقف کی عدالت میں موجود قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹرز نے مخالفت کی۔

بعد ازاں عدالت نے فیصلہ مؤخر کرنے درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت 11 بجے تک ملتوی کردی۔

سماعت جب دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت کے جج محمد بشیر نے فیصلہ مؤخر کرنے کی نواز شریف اور مریم نواز کی درخواستیں مسترد کردیں اور کہا کہ ریفرنس کا فیصلہ آج ہی دن ساڑھے بارہ بجے سنایا جائے گا۔

بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سنانے کا وقت ڈھائی بجے کردیا۔ لیکن ڈھائی بجے سے چند منٹ قبل عدالت کے رجسٹرار نے کمرۂ عدالت میں آکر اعلان کیا کہ اب فیصلہ تین بجے سنایا جائے گا۔

تین بجے عدالت کے جج کمرۂ عدالت میں آئے اور بتایا کہ فیصلے کے اعلان کو ایک بار پھر مؤخر کردیا گیا ہے اور اب فیصلہ ساڑھے تین بجے سنایا جائے گا۔

احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ فیصلے کی فوٹو کاپیاں کرائی جارہی ہیں جس میں دیر لگ رہی ہے۔

ساڑھے تین بجے جب صحافیوں نے کمرۂ عدالت میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انہیں عدالتی عملے نے یہ کہہ کر روک دیا کہ جج صاحب پہلے فریقین کے وکلا سے مشاورت کریں گے لہذا انہیں داخلے کی اجازت نہیں۔

تاہم میڈیا کی غیر موجودگی میں ہی جج محمد بشیر نے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔

XS
SM
MD
LG