رسائی کے لنکس

نواز شریف کا سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ


نواز شریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز ایک جلسے میں کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
نواز شریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز ایک جلسے میں کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

قومی احتساب بیورو (نیب) نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے وارنٹ گرفتاری احتساب عدالت سے حاصل کرلیے ہیں اور وزارتِ داخلہ نے کیپٹن صفدر کا نام بلیک لسٹ میں شامل کردیا ہے۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے وارنٹ گرفتاری احتساب عدالت سے حاصل کرلیے ہیں اور وزارتِ داخلہ نے کیپٹن صفدر کا نام بلیک لسٹ میں شامل کردیا ہے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جمعے کو ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو 10 سال قید اور 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ، ان کی صاحب زادی مریم نواز کو سات سال قید اور 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔

سابق وزیرِ اعظم نے ہفتے کو لندن سے اپنی قانونی ٹیم سے ٹیلی فونک کے کانفرنس کے ذریعے احتساب عدالت کے فیصلے پر مشاورت کی۔

اطلاعات کے مطابق نوازشریف کی قانونی ٹیم نے انہیں جلد از جلد پاکستان آنے کا مشورہ دیا ہے اور احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی کہا ہے۔

نوازشریف نے اپنی لیگل ٹیم کو اسلام ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ پیر کو اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردی جائے گی۔

نوازشریف نے وطن واپسی کے لیے اپنی قریبی رفقا سے بھی مشاورت شروع کردی ہے لیکن ابھی اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ وہ لاہور میں اتریں گے یا اسلام آباد میں۔

نواز شریف نے گزشتہ روز عدالتی فیصلے پر اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی حالت بہتر ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے۔

دریں اثنا نیب کی ہدایت پر وزارتِ داخلہ نے نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کا نام بلیک لسٹ میں ڈال شامل کردیا ہے۔

کیپٹن (ر) صفدر پاکستان میں موجود ہونے کے باوجود جمعے کو فیصلہ سننے کے لیے احتساب عدالت نہیں آئے تھے اور مانسہرہ کے اس حلقے میں انتخابی مہم میں مصروف رہے تھے جہاں سے وہ 25 جولائی کے ہونے والے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔

تاہم عدالت سے سزا ملنے کے بعد اب وہ انتخاب لڑنے کے لیے نااہل ہوگئے ہیں۔

نیب نے گزشتہ روز وزارتِ داخلہ کو خط لکھا تھا کہ کیپٹن صفدر بیرونِ ملک فرار ہوسکتے ہیں اور اس خدشے کے پیشِ نظر ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیا جائے۔

مسلم لیگ (ن) کے کارکن کراچی میں نواز شریف کی سزا کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے کارکن کراچی میں نواز شریف کی سزا کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

ترجمان نیب کے مطابق نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے وارنٹ گرفتاری بھی حاصل کرلیے گئے ہیں اور نیب کے افسر عمران ڈوگر کی سربراہی میں ادارے کی ٹیم کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے لیے انکے آبائی علاقے مانسہرہ پہنچ گئی ہے۔

ترجمان نیب نے بتایا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو ایئرپورٹ پر اترتے ہی گرفتار کرلیا جائے گا اور دونوں کی گرفتاری میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ قانون ذیشان نقوی نے کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ نواز شریف اور شریک ملزموں کو نیب آرڈیننس کے سیکشن 9(اے)4 کے تحت سزا نہیں سنائی گئی۔

اس سیکشن میں کہا گیا ہے کہ اگر بددیانتی، غیر قانونی ذرائع اور کرپشن سے ملزم نے یا اس کے خاندان یا زیرِ کفالت افراد نے اثاثے بنائے ہوں تو وہ اس قانون کے تحت مجرم اور سزا کے مستحق ہوں گے۔

ذیشان نقوی کے مطابق تاہم نواز شریف اور ان کی صاحب زادی اور داماد کو جو سزا دی گئی ہے وہ نیب آرڈیننس کے تحت ہی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے لیکن حاکم علی زرداری کیس میں اعلیٰ عدالتیں قرار دے چکی ہیں کہ آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے کرپشن کو ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہے۔

ذیشان نقوی کے بقول نواز شریف کے وکیل کے دلائل میں بنیادی نکتہ ہی یہ تھا کہ استغاثہ ان کے موکل پر کرپشن کا کیس ثابت نہیں کرسکا ہے۔

وکیل احمد چیمہ کے بقول نوازشریف کو سزا کے خلاف 10 دن میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن احتساب عدالت کا فیصلہ ملزمان کی غیر موجودگی میں معطل نہیں ہوسکتا اور انہیں وطن واپس آنا ہوگا جس کے بعد ہی سزا کی معطلی ممکن ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وکیل ریحان چنہ نے بتایا کہ وفاقی حکومت اگر ملزمان کے لندن میں اثاثے ضبط کرنے کے لیے کارروائی نہیں کرتی تو اس کے خلاف بھی توہینِ عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔

لیکن ان کے بقول حکومت کو برطانیہ میں باقاعدہ قانونی چارہ جوئی کرنا پڑے گی اور قوی امکان ہے کہ نواز شریف بھی وہاں بھرپور قانونی جنگ لڑیں گے۔

XS
SM
MD
LG