سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے سیاست سے تاحیات نااہلی کےقانون کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرنے کے لیے درخواست دائر کردی ہے اور اس قانون پر نظرِ ثانی کی استدعا بھی کی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کسی شخص کی تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق صرف انتخابی تنازعات میں ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل184کی شق نمبر تین کے تحت بطور ٹرائل کورٹ امور انجام نہیں دے سکتی۔
اس شق کے تحت ہونے والے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہیں ملتا جو انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔خیال رہے کہ آئین کے آرٹیکل 183 کی شق تین سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کا اختیار دیتی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی دائر کردہ اس درخواست کو سابق وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی انتخابی سیاست میں تاحیات نااہلی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔
سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں 62 ون ایف کی تشریح سامنے آ چکی ہے کہ اس شق کے تحت ہونے والی نااہلی تاحیات ہوگی۔ لہٰذا اب اس درخواست پر عدالت چاہے تو اپنی ہی کی گئی تشریح تبدیل کرسکتی ہے۔ لیکن بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ وکلا تنظیموں کا ایک سیاسی معاملے میں درخواست دائر کرنا مناسب نہیں ہے اور اس سے سیاسی امور میں وکلا کی غیرجانب داری بھی متاثر ہوگی۔
حکومتی سینیٹر اور قانون دان سینیٹر علی ظفر کہتے ہیں کہ سپريم کورٹ بار کی درخواست کی کوئی اہميت نہيں ہے اور يہ مسترد ہوجائے گی کیوں کہ آئين ميں واضح ہے کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحيات ہوگی اور سپريم کورٹ کہہ چکی ہے کہ آئين ميں تبديلی پارليمنٹ کا کام ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اپیل کا حق دیے بغیر تاحیات نااہلی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور یہ متعلقہ انتخابی حلقے کے ووٹرز کے بنیادی حقوق کے بھی منافی ہے۔
بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا ہے کہ تاحيات نااہلی ختم کرنے کےليےپارليمنٹ ميں آئینی ترميم لانا ہوگی۔ اس لیے سپريم کورٹ بار کو پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور سینئر وکیل حامد خان کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ 62 ون ایف کی تشریح کرسکتی ہے کیوں کہ یہ ان کا ہی فیصلہ تھا اور عدالت کسی معاملے میں اپنی کی گئی تشریح کو تبدیل بھی کرسکتی ہے۔ البتہ 184(3) کے تحت عدالتی فیصلے پر اپیل کا حق دینے یا نہ دینے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔
حامد خان کا کہنا ہے کہ وہ تاحیات نااہلی کے معاملے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کے خلاف ہیں۔ ان کے مطابق وکلا کو سیاسی معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کو اس فیصلے سے اختلاف ہے تو وہ خود فریق بنے اور عدالت جائے۔ لیکن وکلا کی نمائندہ تنظیم کا ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔
سینئر قانون دان سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے مطابق ہونے والے عدالتی فیصلےسے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے آئینی تشریح کے لیے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
آرٹیکل 184(3) سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ جب پہلی بار آپ کسی کو مجرم قرار دے کر نا اہل کر دیتے ہیں تو اس شق کے تحت اسے اپیل کا حق نہیں ملتا۔ اس سے آئین میں فراہم کیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ اس شق کو تبدیل کرنے کے بارے میں پارلیمنٹ ہی کوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے نجی ٹی وی ’جیونیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار میرے لیے قابل احترام ادارہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نااہلی کے معاملے پر دائر کی جانے والی درخواست انسانی حقوق یا عدلیہ کی آزادی کے لیے نہیں ہے بلکہ کچھ شخصیات کے لیے ہے۔
ان کے بقول اس بارے میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ جب پہلے ہی فیصلہ کرچکا ہے تو اس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عدالت میں جانے سے ان کی اپنی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔ اس بارے میں پارلیمنٹ ہی بہترین فورم ہے جہاں بحث کے بعد اس کا حل کیا نکالا جاسکتا ہے۔
خالد جاوید نے کہا کہ اس معاملے میں دو متاثرہ شخصیات مالی طور پر مستحکم ہیں اور وہ اچھے وکلا کی ٹیم کے ساتھ خود سپریم کورٹ میں اپنا کیس پیش کرسکتی ہیں لیکن وکلا کی نمائندہ تنظیم کی طرف سے ایسی درخواست دائر ہونے سے ان کی اپنی ساکھ متاثر ہوگی۔
خالد جاوید نے کہا کہ 184(3) کے سے متعلق ان کا بھی موقف یہی ہے کہ اس میں اپیل کا حق ہونا چاہیے لیکن کوئی کسی فردِ واحد یا شخصیت کے لیے اسے عدالت میں لے کر جائے تو یہ مناسب نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اس آئینی معاملے سے عوام الناس براہِ راست متاثر ہورہے ہوتے تو ایسی صورت میں بار ایسوسی ایشن کو سامنے آنا چاہیے تھا ۔ ان کے بقول اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے کر جانا ہی مسئلے کا بہتر حل ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی مذکورہ درخواست پر اب تک سیاسی جماعتوں کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
درخواست کا پس منظر
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 28 جولائی 2017 کو شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔اُسی برس دسمبر میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما اور اس وقت کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو بھی بیرون ملک اثاثے چھپانے کے الزام میں نااہل قرار دیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد اس بحث کا آغاز ہوگیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے ارکان اسمبلی کی نااہلی کی مدت کتنی ہوگی۔ بعدازاں اس آئینی شق کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
اس بینچ نے 14 فروری 2018 کو جاری کیے گئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 میں مدت کا تعین کردیا گیا تھا لیکن آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت متعین نہیں کی گئی۔ اس لیے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی اورجب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ رہے گا نااہلی بھی برقرار رہے گی۔
عدالت کا کہناتھا کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف اسلامی اقدار کے مطابق ہے اور اس کی یہی ممکنہ تشریح بنتی ہے۔اس عدالتی فیصلے کے باعث سابق وزیرِاعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے سے محروم رہے اور تاحال انتخابی سیاست سے دور ہیں۔
نااہل قرار دیے جانے کے معاملے میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے خواجہ آصف خوش نصیب رہے جنہیں اپریل 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیرون ملک ملازمت چھپانے اور اقامہ رکھنے پر تاحیات نااہل قرار دیاتھا لیکن بعد ازاں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ختم کرکےانہیں انتخاب لڑنے کے لیے اہل قرار دے دیا تھا۔