سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے اور جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دینے پر نظرثانی کیس کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
عمران خان کے کیس میں نظرثانی اپیل مسترد کرتے ہوئے عدالت کا کہنا ہے کہ ’’نظرثانی کی درخواست میں اٹھائے گئے دلائل نمائشی ہیں۔ دلائل کا اصل کیس سے دور دور تک تعلق نہیں۔ نظرثانی کی درخواست میں دلائل پائیدار نہیں۔ اور دلائل کو پذیرائی بخشنا مقدمے کی دوبارہ سماعت کے مترادف ہوگا۔‘‘
جہانگیر ترین کیس میں عدالت کا کہنا ہے کہ ’’ہائیڈ ہاؤس کیلئے زمین اور خریداری کیلئے جہانگیر ترین نے پاکستان سے پیسہ بھیجا۔ لیکن، نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہائیڈ ہاؤس اور آف شور کمپنی کی ملکیت پر پردہ ڈالا گیا۔ عوامی عہدہ رکھنے والوں کیلئے اثاثے اور آمدن کے ذرائع ظاہر کرنا لازمی ہے۔ اثاثے چھپانے پر آرٹیکل 62 ون ایف متحرک ہوجاتا ہے‘‘۔
دونوں فیصلے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیے۔ عمران خان کیس میں نظرثانی کے حوالے سےتین صفحات پر مشتمل فیصلے میں چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ نظرثانی کی درخواست میں اٹھائے گئے دلائل نمائشی ہیں ان دلائل کا اصل کیس سے دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ ان دلائل کو پذیرائی بخشنا مقدمے کی دوبارہ سماعت کے مترادف ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ حنیف عباسی کے وکیل کے دلائل سے فیصلے پر نظرثانی نہیں بنتی۔
جہانگیر ترین کیس کی نظرثانی اپیل کے 9 صفحات پر مشتمل فیصلے میں چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ جہانگیر ترین ہائیڈ ہاؤس لندن کے بینیفشل مالک ہیں۔ اور جہانگیر ترین کے وکیل عدالت کو مطمئن نہیں کرسکے۔ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق، جہانگیر ترین آف شور کمپنی کے لائف ٹائم بینیفشری اور کنڑولر ہیں۔ جہانگیر ترین کے پاس ٹرسٹ سے متعلق فیصلہ سازی کا اختیار ہے۔ ہائیڈ ہاوس کیلئے زمین اور خریداری کیلئے جہانگیر ترین نے پاکستان سے پیسہ بھیجا۔ لیکن، نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہائیڈ ہاؤس اور آف شور کمپنی کی ملکیت پر پردہ ڈالا گیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کیلئے اثاثے اور آمدن کے ذرائع ظاہر کرنا لازم ہے۔ اثاثے چھپانے پر آرٹیکل 62 ون ایف متحرک ہوجاتا ہے۔ اس مقدمے میں حقائق چھپانے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ عوامی عہدہ رکھنے والے کیلئے شفافیت ضروری ہے۔ آرٹیکل 62 ون ایف کی روح کیلئے ایمانداری اور عوام کا اعتماد لازم ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کے وکیل نے نظرثانی کے مقدمے میں نئی دستاویزات پیش کیں۔ لیکن نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ قانون شہادت کے مطابق، بار ثبوت جہانگیر ترین کے کندھوں پر تھا۔ دوران سماعت جہانگیر ترین کو دستاویزات پیش کرنے کے کئی مواقع دئیے گئے۔ لیکن وہ قابل ذکر دستاویزات پیش نہ کرسکے۔ لہذا، جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف نظرثانی خارج کی جاتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر خان ترین کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے15 دسمبر 2017 کو نااہل جبکہ عمران کو اہل قرار دیا تھا۔ اس نااہلی کے بعد جہانگیر ترین لودھراں سے ایم این اے کی نشست سے محروم ہوگئے تھے، جبکہ انہوں نے پارٹی کی سیکرٹری جنرل شپ سے بھی استعفیٰ دیدیا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف جہانگیر ترین نے سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کی۔ لیکن 27 ستمبر 2018 کو یہ اپیل بھی مسترد کردی گئی تھی جس کے بعد پارلیمانی سیاست کے دروازے جہانگیر ترین کے لیے بند ہوگئے تھے۔
عمران خان کو صادق اور امین قرار دیے جانے کے فیصلہ کے خلاف حنیف عباسی نے نظرثانی اپیل دائر کی تھی جو18 اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ میں مسترد کردی گئی تھی، اور اب عدالت نے تفصیلی تحریری فیصلے جاری کیے ہیں۔