واشنگٹن —
سعودی خواتین نے سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شوریٰ کونسل کا حلف اٹھا لیا ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے اُن سے یہ حلف لیا۔
شاہ عبداللہ نومبر میں اپنی کمر کے آپریشن کے بعد پہلی مرتبہ سعودی سرکاری ٹیلی ویژن پر دکھائی دئے۔ انہوں نے منگل کے روز اپنی مجلسِ شوریٰ کے ان اراکین سے حلف لیا جو قانون سازی کے حوالے سے سعودی فرمانروا کو مشاورت دیں گے۔
شاہ عبداللہ اس برس 90 سال کے ہوگئے ہیں اور سعودی عرب کی پالیسی سازی میں ان کی رائے حتمی تصور کی جاتی ہے۔ شاہ عبداللہ بتدریج اور محتاط رہتے ہوئے سعودی معاشرے میں خواتین کے کردار کو فروغ دے رہے ہیں۔
اس موقعے پر شوریٰ کی خواتین ارکان سے مخاطب ہو تے ہوئے شاہ عبداللہ کا کہنا تھا، ’آپ اِس شوریٰ کونسل کا حصہ اِس لیے بنائی گئی ہیں، کیونکہ نہ صرف آپ اس کی اہل تھیں، بلکہ معاشرے کے ایک اہم طبقے کی نمائندگی کرنے کی وجہ سے آپ پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کی گئی ہیں۔‘
اِس بات کا اعلان 2011ء میں کیا گیا تھا کہ سعودی خواتین کو شوریٰ کونسل کا رکن بنایا جائے گا۔ لیکن، ان خواتین کے نام گذشتہ ماہ ہی سامنے لائے گئے تھے۔
سعودی عرب میں حکومتی حکام کی تقرری کی ذمہ داری مکمل طور پر سعودی بادشاہ پر عائد ہوتی ہے۔
سعودی عرب میں انتخابات میونسپل کونسل کی آدھی نشستوں پر منعقد کیے جاتے ہیں جن کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ اگلی مرتبہ سعودی خواتین کو بھی ووٹ استعمال کرنے اور ان الیکشنز میں کھڑا ہونے کا حق حاصل ہوگا۔
شوریٰ کونسل میں خواتین کی تعیناتی پر گذشتہ ماہ جنوری میں شاہی عدالت کے باہر مظاہرہ بھی کیا گیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ خواتین کا کام کرنا شریعت کے منافی ہے۔
سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں، جبکہ ملازمت، سفر یا بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے بھی اُنہیں مرد سرپرست کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
شاہ عبداللہ نومبر میں اپنی کمر کے آپریشن کے بعد پہلی مرتبہ سعودی سرکاری ٹیلی ویژن پر دکھائی دئے۔ انہوں نے منگل کے روز اپنی مجلسِ شوریٰ کے ان اراکین سے حلف لیا جو قانون سازی کے حوالے سے سعودی فرمانروا کو مشاورت دیں گے۔
شاہ عبداللہ اس برس 90 سال کے ہوگئے ہیں اور سعودی عرب کی پالیسی سازی میں ان کی رائے حتمی تصور کی جاتی ہے۔ شاہ عبداللہ بتدریج اور محتاط رہتے ہوئے سعودی معاشرے میں خواتین کے کردار کو فروغ دے رہے ہیں۔
اس موقعے پر شوریٰ کی خواتین ارکان سے مخاطب ہو تے ہوئے شاہ عبداللہ کا کہنا تھا، ’آپ اِس شوریٰ کونسل کا حصہ اِس لیے بنائی گئی ہیں، کیونکہ نہ صرف آپ اس کی اہل تھیں، بلکہ معاشرے کے ایک اہم طبقے کی نمائندگی کرنے کی وجہ سے آپ پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کی گئی ہیں۔‘
اِس بات کا اعلان 2011ء میں کیا گیا تھا کہ سعودی خواتین کو شوریٰ کونسل کا رکن بنایا جائے گا۔ لیکن، ان خواتین کے نام گذشتہ ماہ ہی سامنے لائے گئے تھے۔
سعودی عرب میں حکومتی حکام کی تقرری کی ذمہ داری مکمل طور پر سعودی بادشاہ پر عائد ہوتی ہے۔
سعودی عرب میں انتخابات میونسپل کونسل کی آدھی نشستوں پر منعقد کیے جاتے ہیں جن کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ اگلی مرتبہ سعودی خواتین کو بھی ووٹ استعمال کرنے اور ان الیکشنز میں کھڑا ہونے کا حق حاصل ہوگا۔
شوریٰ کونسل میں خواتین کی تعیناتی پر گذشتہ ماہ جنوری میں شاہی عدالت کے باہر مظاہرہ بھی کیا گیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ خواتین کا کام کرنا شریعت کے منافی ہے۔
سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں، جبکہ ملازمت، سفر یا بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے بھی اُنہیں مرد سرپرست کی اجازت درکار ہوتی ہے۔