سعودی عرب کی حکومت نے خواتین کو اولمپکس مقابلوں میں شرکت کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد آئندہ ماہ لندن اولمپکس میں شرکت کرنے والے سعودی دستے میں خواتین کھلاڑیوں کی شرکت کا امکان روشن ہوگیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہوگا کہ سعودی خواتین اولمپکس مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کرنے والے قومی دستے کا حصہ بنیں گی۔ اس سے قبل سعودی حکام نے لندن اولمپکس کے لیے اپنے دستے میں خواتین کھلاڑیوں کو شامل کرنے سے انکار کیا تھا جس پر انسانی حقوق کی کئی عالمی تنظیموں کی جانب سے سعودی عرب کو اولمپکس کے لیے نااہل قرار دینے کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔
اولمپکس میں سعودی خواتین کو شرکت کی اجازت دینے کا اعلان اتوار کو لندن میں واقع سعودی عرب کے سفارت خانے نے ایک بیان کے ذریعے کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی مقامی اولمپک کمیٹی لندن مقابلوں میں شرکت کی اہل خواتین کھلاڑیوں کو قومی دستے کا حصہ بنانے کی کوششوں کی نگرانی کرے گی۔
'انٹرنیشل اولمپک کمیٹی' نے اس پیش رفت پر پیر کو اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ لندن اولمپکس میں سعودی خواتین کی شرکت یقینی بنانے کے لیے سعودی حکام کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق سعودی حکومت کا فیصلہ لندن اولمپکس کے انعقاد سے چند ہفتے قبل ہی سامنے آیا ہے اس لیے امکان ہے کہ صرف ایک سعودی خاتون دلما ملہاس ہی مقابلوں کے لیے کوالیفائی کر پائیں گی۔
ملہاس 2010ء میں سنگاپور میں ہونے والے جونیئر اولمپکس میں گھڑ سواری کے مقابلے میں شریک ہوچکی ہیں ۔ لیکن وہ ان مقابلوں میں نجی حیثیت میں شریک ہوئی تھیں اور انہیں سعودی حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں تھی۔
یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں سعودی عرب میں کھیلوں کے منتظم ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ حکومت خواتین کھلاڑیوں کو اولمپکس مقابلوں کے لیے 'کوالیفائی' کرنے سے نہیں روکے گی لیکن ان خواتین کو سرکاری سرپرستی فراہم نہیں کی جائے گی۔
اس بیان کے بعد انسانی حقوق کی کئی بین الاقوامی تنظیموں نے 'انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی' سے درخواست کی تھی کہ خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ صنفی امتیاز برتنے پر سعودی عرب کی لندن اولمپکس میں شرکت پر پابندی عائد کی جائے۔
قدامت پسند معاشرے کے حامل سعودی عرب میں معاشرتی سرگرمیوں میں خواتین کے کردار کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور مملکت کے بااثر علما اور مذہبی حلقے عوامی مقامات پر ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں میں خواتین کی شرکت کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔
ادھر، اِس حوالے سے’سعودی گزیٹ‘ کی سینئر ایڈیٹر سمیرا عزیز سے وائس آف امریکہ کی پروڈیوسر نیلوفر مغل کی گفتگو اِس آڈیو رپورٹ میں ملاحظہ فرمایئے: