روس کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یوکرین کی گندم کی برآمدات دوبارہ شروع کرنے کے لیے روس کی جانب سے پیش کیے جانے والے لائحہ عمل کو استنبول میں منعقدہ مذاکرات میں بڑی حد تک حمایت حاصل رہی ہے اور اس سلسلے میں معاہدہ ہونے کے قریب ہے۔
وزارتِ دفاع کا کہنا تھا کہ وہ روس کی جانب سے شروع کیے گئے بلیک سی انیشی ایٹو کی تکمیل پر کام کر رہا ہے۔
’’روس نے اپنے حلیف ممالک سمیت بیرونِ ملک خوراک کی ترسیل کے لیے کچھ اقدامات تجویز کیے ہیں تاکہ کیف حکومت سامان کی ترسیل کے بدلے ہتھیار اور فوجی ساز و سامان نہ خرید سکے، ساتھ ہی اشتعال انگیزی کو بھی روکا جا سکے۔‘‘
روس، یوکرین، ترکی اور اقوامِ متحدہ کے مابین معاہدے پر دستخط اگلے ہفتے متوقع ہیں۔
اس معاہدے کے ذریعے یوکرین سے بحیرہ اسود کو استعمال کرتے ہوئے گندم کی برآمدات کو دوبارہ سے شروع کیا جا سکے جو یوکرین جنگ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد سے بڑی مقدار میں گندم یوکرین کی بندرگاہوں پر پھنس گئی ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اوڈیسا میں گندم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
روسی میزائل حملے میں 23 افراد ہلاک
دوسری جانب یوکرین کے محاذ جنگ سے دور دراز واقع شہر وینیٹسیا میں جمعرات کے روز ہونے والے ایک روسی میزائل حملے میں ایک چار سالہ بچی سمیت 23 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
میزائل حملے سے شہر میں واقع ایک طبی سینٹر تباہ اور کئی مریض ہلاک ہوگئے۔
اس علاقے کے گورنر سرہی بورزوف نے کہا کہ یوکرین کے فضائی دفاعی نظام نے علاقے میں مزید چار میزائل مار گرائے ہیں۔
تین لاکھ 70 ہزار کی آبادی کے ساتھ، وینیٹسیا یوکرین کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔
فروری کے اواخر میں جنگ شروع ہونے کے بعد مشرقی یوکرین سے ہزاروں افراد، جہاں روس نے اپنی جارحانہ کارروائیاں مرکوز کر رکھی ہیں، فرار ہو چکے ہیں۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا ہے کہ مرنے والوں میں ایک بچی بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس ہر روز شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے، یوکرین کے بچوں کو مار رہا ہے۔
ان کے مطابق میزائل ایسے شہری مقامات پر داغے جا رہے ہیں جہاں کوئی فوجی تنصیبات نہیں ہیں۔ یہ دہشت گردی کی کھلی کارروائی نہیں تو اورکیا ہے؟
یہ حملہ روس کی جانب سے طویل مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے پر ہجوم علاقوں کو نشانہ بنانے کے سلسلے کا حصہ ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ نشانہ بننے والی عمارت میں فوجی افسران کا ایک کلب واقع تھا جسے ہتھیاروں کی سپلائی کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
ماسکو کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں فوجی افسران کے کلب کو نشانہ بنایا گیا۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ کلب ثقافتی سینٹر کے طور پر کام کرتا تھا اور اس عمارت میں کئی دکانیں اور آفس بھی واقع تھے۔