امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ لاکھوں یوکرینی باشندوں کو یوکرین کے مشرقی اور جنوبی حصوں سے, جن پر اس کا کنٹرول ہے, جبراً نکال کر روس بھیج رہا ہے۔
بلنکن نے کہا کہ اندازاً 9 لاکھ سے 16 لاکھ یوکرینی شہریوں کو جن میں دو لاکھ ساٹھ ہزار بچے بھی شامل ہیں, حراست میں لیا گیا, ان سے تحقیقات کی گئیں۔ اور انہیں زبردستی انکے گھروں سے نکال کر روس بھیجا گیا۔اور چھان بین کی کارروائیوں کے بعد ان میں سے کچھ کو مشرق بعید کے الگ تھلگ علاقوں میں بھی بھیجا گیا۔
13 جولائی کو ایک بیان میں بلنکن نے روس کو ان کارروائیوں کو بند کرنے کے لئے کہا جو بقول ان کے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ جنہیں 1949 کے جنیوا کنونشن یا جنیوا معاہدوں کی کسی بھی شق کی بنیاد پر تحفظ حاصل ہے، ان کی غیر قانونی منتقلی اور انہیں زبر دستی کہیں اور بھیجنا چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اور جنگی جرم ہے۔
بیان میں بلنکن نے کہا کہ چھان بین اور چھانٹ کر لوگوں کو الگ کرنے کی کارروائیاں خاندان کے افراد کو جدا کر رہی ہیں اوریوکرینی پاسپورٹ ضبط کرکے روسی پاسپورٹ دینا بظاہر یو کرین کے کچھ حصوں میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچ جانے والوں میں سے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ روسی حکام نے ہزاروں لوگوں کو ڈونیٹسک میں نظر بندی کیمپوں میں بھیجا ہے جن کو ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند کنٹرول کرتے ہیں۔ جہاں اطلاعات کے مطابق بہت سوں پر تشدد کیا جارہا ہے اور انہیں اذیتیں دی جا رہی ہیں۔
اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ بعض ایسے افراد جنہیں چھان بین کے عمل کے لئے منتخب کیا گیا تھا، انہیں سرسری سماعت کے بعد سزائے موت دے دی گئی۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ فلٹریشن پروگرام یا لوگوں کو چھانٹ کر الگ کرنے کا پروگرام پہلے ہی بنا لیا گیا تھا۔ اور یہ اسی طرح کا پروگرام ہے جس پر روس، چیچنیا سمیت دوسری جنگوں میں بھی عمل کر چکا ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ اسکے لئے روس کو ذمہ دار ٹھیرایا جانا چاہئیے۔
انکا کہنا تھا کہ یہ ہی سبب ہے کہ ہم مظالم کی دستاویزات اور شواہد اور ثبوت حاصل کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کی یوکرینی اور بین الاقوامی حکام کی کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
یہ بیان یوکرین میں مبینہ جنگی جرائم کے بارے میں دی ہیگ میں’ یوکرین اکاونٹیبلٹی‘ کانفرنس سے ایک روز قبل آیا ہے۔
(اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد اے ایف پی سے بھی لیا گیا ہے)