گذشتہ ماہ عہدہ صدارت کی متنازعہ تیسری میعاد پربراجمان ہونے کے بعد، روسی صدر ولادیمیر یپوٹن اپنے پہلے بیرونی دورے پر بیلاروس پہنچے ہیں۔
صدر پیوٹن جرمنی اور فرانس جانے سے قبل، اپنے ہم منصب الیگزینڈر لکاشینکو سے، جنھوں نے منسک کے ہوائی اڈے پر اُن کا استقبال کیا، روس بیلاروس تعلقات پر بات چیت کریں گے۔
امریکی سیاسی تجزیہ کار ڈونالڈ جینسن کا کہنا ہے کہ مسٹر پیوٹن کی آمرانہ طرز حکمرانی کے پاسدار سے ملاقات واشنگٹن کو چونکا دینے کے لیے کافی ہے، جو بشمول یورپی یونین منسک کی انسانی حقوق سے متعلق پالیسیوں کی مذمت کرتا آیا ہے۔ مغربی راہنما بھی مسٹر پیوٹن پر آمرانہ انداز اوربادشاہت کی جھلک دکھلانے کا الزام لگاتے آئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی روسی سروس کی ایک ویب سائٹ پر جینسن نے لکھا ہے کہ حالانکہ لکاشینکو کی قسمت کا دارومدار پیوٹن پر ہے، باقی ماندہ مشرقی روس میں اُن کی شان و شوکت کوکئی رکاوٹیں حائل ہیں۔مثال دیتے ہوئے وہ یوکرین اور وسطی ایشیائی ممالک میں ماسکو پر زیادہ انحصار کے خلاف مزاحمت کا ذکر کرتے ہیں۔
روس اور بیلاروس قریبی اتحادی رہے ہیں، لیکن بظاہرروس کی طرف سے بیلاروس کے معاشی اثاثوں پرقبضہ جمانے کی کوششوں کے باعث دونوں ملکوں کےمابین مخاصمت کا عنصر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔
گذشتہ سال روس، بیلاروس اور قزاقستان نے2015ء تک یوروشیائی معاشی یونین قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا، جو یورپی یونین کی طرح کا پراجیکٹ ہوگا جسے مسٹر پیوٹن سابق سوویت ریاستوں کو دوبارہ اکٹھا کرنے کی غرض سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔
مسٹر پیوٹن جمعے کو جرمنی اور فرانس جائیں گے۔
متوقع طور پر وہاں اُنھیں شام میں تشدد کی کارروائیوں کے خاتمے کے سلسلے میں حکومت شام کے خلاف بین الاقوامی اقدام کرنے پر روس کے انکار کے حوالے سے جرمن چانسلر آنگلہ مرخیل اور فرانسیسی صدر فرانسواں اولاں کی طرف سے سوالات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑے گا۔