روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے گزشتہ سال یوکرین میں گر کر تباہ ہونے والے ملائیشین طیارے کی تباہی کی تحقیقات کے لیے اقوامِ متحدہ کے کمیشن کے قیام کی مخالفت کی ہے۔
جمعرات کو نیدرلینڈز کے وزیرِاعظم مارک روٹ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے روسی صدر نے کمیشن کے قیام کے مطالبات کو "قبل از وقت اور غیر ضروری" قرار دیا۔
روسی صدر کا یہ بیان 'ایم ایچ 17' کی تباہی کے واقعے کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر سامنے آیا ہے۔
ملائشین کمپنی کا طیارہ گزشتہ سال 17 جولائی کو روس نواز باغیوں کے زیرِ انتظام یوکرین کے مشرقی علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا تھا اور اس میں سوار تمام 298 افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں نیدرلینڈز کے شہریوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔
یوکرین کی حکومت اور باغیوں نے ایک دوسرے پر طیارے کو مار گرانے کے الزامات عائد کیے تھے لیکن طیارے کی تباہی کی تحقیقات کرنے والے مختلف ملکوں کے حکام تاحال کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔
نیدرلینڈز کے وزیرِاعظم مارک روٹ نے حال ہی میں اقوامِ متحدہ سے حادثے کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام ممالک عالمی ادارے کی تحقیقات میں تعاون پر مجبور ہوں گے جس کے نتیجے میں حادثے میں ہلاک ہونے والے لواحقین کو انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔
روس ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا ہے کہ طیارہ باغیوں کی جانب سے فائر کیے جانے والے میزائل کا نشانہ بنا۔
جمعرات کو کریملن سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیرِاعظم روٹ سے گفتگو میں صدر پیوٹن نے نیدرلینڈز اور بعض دیگر ملکوں کی جانب سے طیارہ حادثے کی تحقیقات اقوامِ متحدہ سے کرانے کی "قبل از وقت اور نقصان دہ" تجویز پر روس کے موقف کی وضاحت کی۔
بیان کے مطابق روسی صدر نے حادثے کی "مکمل، بامقصد اور آزادانہ" تحقیقات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے "ذرائع ابلاغ میں حادثے کی سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی کوریج" کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
روس کی حکومت اس خیال کی سختی سے تردید کرتی ہے کہ بدقسمت مسافر طیارہ باغیوں کو روس کی جانب سے فراہم کیے جانے والے 'بی یو کے' ساختہ میزائل کا نشانہ بن کر تباہ ہوا تھا۔
روسی حکام کا موقف رہا ہے کہ طیارہ یوکرینی فوج کی جانب سے فائر کیے جانے والے میزائل کے باعث تباہ ہوا جو دراصل باغیوں پر فائر کیا گیا تھا۔ یوکرین کی حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
طیارے کی حادثے کی تحقیقات کرنے والی کثیر الملکی ٹیم کی قیادت نیدرلینڈز کے پاس ہے جس میں بیلجئم، آسٹریلیا اور یوکرین کے حکام بھی تعاون کر رہے ہیں۔
امکان ہے کہ تحقیقاتی ٹیم حادثے کی وجوہات سے متعلق اپنی حتمی رپورٹ اکتوبر میں جاری کردے گی۔