رسائی کے لنکس

گرین لینڈ پر ٹرمپ کے بیانات: یورپ کا محتاط ردعمل، حالات پر گہری نظر ہے، روس


تیزی سے پگھلتے ہوئے برف پوش گرین لینڈ کا ایک منظر۔ برف کے دیوقامت ٹکڑے پانی میں تیر رہے ہیں۔ 27 مئی 2024
تیزی سے پگھلتے ہوئے برف پوش گرین لینڈ کا ایک منظر۔ برف کے دیوقامت ٹکڑے پانی میں تیر رہے ہیں۔ 27 مئی 2024
  • گرین لینڈ برف سے ڈھکا دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔
  • گرین لینڈ سرکاری طور پر ڈنمارک کی بادشاہت میں شامل ہے لیکن وہاں ایک خودمختار حکومت قائم ہے۔
  • گرین لینڈ کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور زیر زمین قیمتی اور کم یاب معدنیات ڈھونڈنے والوں کی منتظر ہیں۔
  • آرکٹک دائرے میں واقع یہ علاقہ روس یورپ اور امریکہ کے درمیان واقع ہے اور اس کی اسٹرٹیجک اہمیت ہے۔
  • گرین لینڈ میں امریکہ کا ایک فوجی مرکز قائم ہے۔
  • ٹرمپ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کو اپنی سیکیورٹی کے لیے گرین لینڈ کے کنٹرول کی ضرورت ہے۔
  • گرین لینڈ، ڈنمارک اور یورپ نے ٹرمپ کے بیان کو مسترد کر دیا ہے۔
  • روس نے کہا ہے کہ ہم آرکٹک زون میں موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔

نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فوجی یا اقتصادی اقدامات کو مسترد کرنے سے انکار کے بعد، روس نے کہا ہے کہ وہ گرین لینڈ کی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعرات کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم اس صورت حال میں ہونے والی ڈرامائی پیش رفت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اور خدا کا شکر ہے کہ ابھی یہ معاملہ بیانات کی سطح پر ہے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ آرکٹک زون سے ہمارے قومی اور اسٹرٹیجک مفادات جڑے ہیں۔ ہم آرکٹک زون میں موجود ہیں اور ہم وہاں اپنی موجودگی قائم رکھیں گے۔

گرین لینڈ کا ایک بڑا حصہ، جو زیادہ تر آرکٹک سرکل کے اوپر واقع ہے، سرکاری طور پر 1953 سے ڈنمارک کی بادشاہت کا حصہ چلا آ رہا ہے، تاہم اس جزیرے پر وہاں کے لوگوں کی اپنی حکومت قائم ہے۔

گرین لینڈ میں قائم ایک امریکی فوجی مرکز پیتوفک اسپیس بیس کا ایک منظر۔ 4 اکتوبر 2023
گرین لینڈ میں قائم ایک امریکی فوجی مرکز پیتوفک اسپیس بیس کا ایک منظر۔ 4 اکتوبر 2023

قومی سلامتی کا معاملہ

منگل کے روز فلوریڈا میں ایک نیوز کانفرنس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کو سیکیورٹی کے مقاصد کے لیے گرین لینڈ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے فوجی یا اقتصادی ذرائع استعمال کرنے کے امکان کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ آیا ڈنمارک کا اس پر کسی طرح کا کوئی قانونی حق ہے۔ لیکن اگر کوئی حق ہے بھی تو انہیں اس سے دستبردار ہو جانا چاہیے، کیونکہ ہمیں اپنی قومی سلامتی کے لیے اس کی ضرورت ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کر رہے ہیں۔ 8 جنوری 2025
ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کر رہے ہیں۔ 8 جنوری 2025

ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ اس تمام علاقے میں چین کے بحری جہاز ہیں۔ تمام علاقے میں روس کے بحری جہاز ہیں۔ ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔

ایک تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کی تجزیہ کار لیانا فکس کہتی ہیں کہ آرکٹک کے زیادہ تر حصے کی طرح گرین لینڈ بھی تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آرکٹک تیزی سے بڑی طاقتوں کی مسابقت اور دشمنی کا زون بن رہا ہے۔ اور امریکہ کو یہ تشویش ہے کہ وہ یہ کھیل ہار رہا ہے۔

لیانا فکس نے کہا کہ آرکٹک کا علاقہ تجارتی سامان بلکہ اہم معدنیات، خاص طور پر زمین سے نکلنے والی نایاب معدنیات، دونوں حوالوں سے زیادہ قابل رسائی ہو گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک فوجی زون بھی بن رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس اس خطے میں چینی ساحلی محافظوں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔

گرین لینڈ برائے فروخت نہیں

ڈنمارک نے یہ واضح کر دیا ہے کہ گرین لینڈ برائے فروخت نہیں ہے۔ ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکی راسمیسن نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ ٹرمپ کے بیانات، ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کے لیے بحران کا باعث بن رہے ہیں۔

راسمیسن نے بدھ کے روز کہا کہ میں ایک ایسے صدر کو دیکھ رہا ہوں، جو وائٹ ہاؤس جانے کے راستے پر ہیں۔ جن کی زیادہ توجہ آرکٹک پر ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ علاقہ ان کے پاس ہے۔ ڈنمارک کی طرف سے یہ علاقہ ہمارے پاس بھی ہے۔ اور ہمارے پاس یہ نیٹو کے اندر بھی ہے۔

تجزیہ کار فکس کہتی ہیں کہ ڈنمارک کو مخمصے کا سامنا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈنمارک پر بھی یہ پوری طرح واضح ہے کہ امریکہ کی طرف سے گرین لینڈ میں نہ صرف سرمایہ کاری میں تعاون بلکہ فوجی تعاون بھی حقیقتاً ہر ایک کے فائدے میں ہو گا۔

کئی یورپی رہنماؤں نے ٹرمپ کے بیانات کو مسترد کر دیا ہے، تاہم زیادہ تر نے ایک ایسے صدر پر، جو عنقریب اپنا عہدہ سنبھالنے والے ہیں، براہ راست تنقید سے اجتناب کیا۔

جرمنی کے چانسلر اولف شولز، فائل فوٹو
جرمنی کے چانسلر اولف شولز، فائل فوٹو

جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ مغرب کی بنیادی اقدار خطرے میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سرحدوں کے ناقابل تسخیر ہونے کے اصول کا اطلاق ہر ملک پر ہوتا ہے، چاہے وہ ہمارے مغرب میں ہو یا مشرق میں ہو۔

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل برو نے زیادہ براہ راست بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے لیے تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دنیا کے کسی ملک کو، چاہے وہ کوئی بھی ہو، اور مجھے روس سے شروع کرتے ہوئے کہنے دیں ۔۔۔ کہ وہ خودمختار سرحدوں کی وضاحت کرے۔

گرین لینڈ کی آزادی

اس دوران گرین لینڈ کی حکومت مکمل آزادی کے لیے ریفرنڈم کرانے پر زور دے رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کے مستقبل کا فیصلہ صرف وہاں کے عوام کریں گے۔

گرین لینڈ کے وزیراعظم میوٹ ایگیڈ، فائل فوٹو
گرین لینڈ کے وزیراعظم میوٹ ایگیڈ، فائل فوٹو

گرین لینڈ کے وزیر اعظم موٹ بوروپ ایگیڈ نے جمعرات کو کوپن ہیگن کے اپنے دورے کے دوران کہا، "گرین لینڈ ایک نئے دور اور ایک نئے سال کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔ گرین لینڈ کے لوگ، اس سے قطع نظر کہ وہ کہاں رہتے ہیں، اس کے ہی عوام ہیں۔ اس زمانے کے لوگوں کی طرح، ہمیں اپنے ملک کو ایک نئے مستقبل کی راہ پر ڈالنے کے لیے لازمی طور پر متحد ہونا چاہیے۔"

(وی او اے نیوز)

فورم

XS
SM
MD
LG