شام کے شمالی علاقے سے امریکی فوج کے انخلا کے فوری بعد شامی حکومت کے کلیدی اتحادی روس کی فوجیں وہاں اپنے قدم جما رہی ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، منگل کے روز روس نے اعلان کیا ہے کہ شمالی شام کے قصبے،منبج کے قریب ترک اور شامی فوج کے ساتھ ساتھ روسی فوجی دستے بھی گشت کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منبج سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے سیکورٹی خلا کا فائدہ روس اٹھا رہا ہے۔
روسی وزارت دفاع کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شمال مغربی منبج میں روس کی ملٹری پولیس گشت کر رہی ہے۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ روسی فوج ترک حکومت کے ساتھ ’’رابطے میں ہے‘‘۔
پیر کو شام گئے ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ امریکی فوجیں منبج سے جا چکی ہیں۔
منگل کی علی الصبح شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ سرکاری فوج قصبے میں داخل ہو گئی ہے، جس کی ویڈیو فوٹیج نشر کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منبج کے مرکزی علاقے میں شامی فوج کی واپسی پر علاقے کے مکین خوشی منا رہے ہیں۔
ایک ہی روز قبل شامی کردوں نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ سمجھوتا طے کر لیا ہے جس کا مقصد ہفتے بھر سے شمالی شام میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقے میں جاری ترک حکومت کی کارروائی کو ناکام بنانا ہے۔
شامی کرد اہلکاروں نے بتایا ہے کہ سمجھوتے کے بعد چند سرحدی علاقوں میں حکومت شام کو اجازت ہو گی کہ وہ سیکورٹی سنبھال لے۔ شامی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کی انتظامیہ مقامی اداروں کا کام بحال رکھے گی۔
ترکی کا کہنا ہے کہ اس کی فوجی کارروائی کا مقصد سرحدی علاقے سے شامی کرد افواج کا صفایا کرنا ہے جن کے ترکی کے اندر موجود کرد شدت پسندوں کے ساتھ رابطے ہیں اور یہ کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں شامی مہاجرین کو اپنے وطن واپس بھیجا جا سکے گا۔
امریکہ اور ترکی کے مغربی اتحادیوں نے فوجی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں داعش کا شدت پسند گروپ پھر سے سر اٹھائے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے پیر کے روز ترک صدر رجب طیب اردوان سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ بندی پر فوری عمل کیا جائے جبکہ ترکی کے دفاع اور توانائی کے وزیروں کے علاوہ تین اعلیٰ ترک حکام پر تعزیرات عائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ایک اور اخباری اطلاع کے مطابق، مشرق وسطیٰ میں روس ہی ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ تمام فریق بات چیت کرتے ہیں۔