سوویت یونین کے آخری لیڈر مخائل گوربا چوف نے چند روز قبل اپنی 80 ویں سالگرہ منائی ہے ۔ انھوں نے اپنے دور میں خارجہ پالیسی میں کتنی بنیادی تبدیلیاں کیں۔
مخائل گوربا چوف 11 مارچ، 1985ء کو سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے تھے ۔اس وقت ان کی عمر 54 برس تھی اور وہ حکمراں Politburo کے سب سے کم عمر رکن تھے۔ سوویت یونین میں Politburo مرکزی پالیسی ساز کمیٹی تھی اور یہی کمیٹی انہیں ووٹ کے ذریعے اقتدار میں لائی تھی۔ اگلے چھہ برسوں میں انھوں نے جو پالیسیاں اختیار کیں ان سے تاریخ کا رُخ بدل گیا اور سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا۔ داخلی محاذ پر ان پالیسیوں کو “glasnost” یعنی مشورے سے چلائی جانے والی کھلی پالیسیوں کا نام دیا گیا۔ خارجہ امور میں، مسٹر گورباچوف کی اصلاحات کو نئی سوچ کا نام دیا گیا تھا۔
کولمبیا یونیورسٹی کے Robert Legvold کہتے ہیں کہ بات صرف اتنی نہیں تھی کہ مسٹر گورباچوف نے ماسکو کا رویہ تبدیل کر دیا۔ ان کے مطابق ’’وہ سیاسی اندازِ فکر میں ایک بنیادی تبدیلی لائے کہ بین الااقوامی سیاست میں سوویت یونین کا مقام کیا ہے یا کیا ہونا چاہیئے، اسے اپنا رول کس طرح ادا کرنا چاہیئے، اورماضی میں کیا بنیادی غلطیاں ہو چکی ہیں۔‘‘
Legvold کہتے ہیں کہ مسٹر گورباچوف نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ سوویت یونین فوجی طاقت کے استعمال سے، باہر کی دنیا میں اپنا اثر و رسوخ نہیں بڑھا سکتا اور ایک نئی خارجہ پالیسی کی تشکیل کے لیے جو اقتصادی طور پر پائیدار ہو، روس کو بعض شعبوں میں اپنی سرگرمیاں کم کرنی پڑیں گی۔ افغانستان ایسا ہی ایک شعبہ تھا جہاں سوویت فوجیں دسمبر 1979ء سے مجاہدین کے ساتھ گوریلا جنگ لڑ رہی تھیں۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Archie Brown کہتے ہیں کہ افغانستان میں سوویت روس کی موجودگی کے بارے میں مسٹر گورباچوف کے خیالات بڑے مختلف تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جب افغانستان پر حملہ کیا گیا، تو گورباچوف کی ملاقات مستقبل کے وزیرِ خارجہ Eduard Shevardnadze سے ہوئی۔ وہ دونوں پولٹبیورو کے رکن تھے لیکن اس فیصلے میں انہیں شریک نہیں کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کے ایک بہت چھوٹے سے گروپ نے کیا تھا۔ ان دونوں کا خیال تھا کہ یہ حملہ ایک فاش غلطی ہے ۔ لہذا جنرل سیکرٹری بننے کے فوراً بعد سے ہی، گورباچوف سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکالنا چاہتے تھے۔ لیکن جب بہت سے لوگ مر چکے ہوتے ہیں تو فوجیں نکالنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ با وقار انداز سے اور کسی سمجھوتے کے ساتھ نکلیں۔‘‘
Brown کہتے ہیں کہ افغانستان سے روسی فوجیں نکالنے میں، مسٹر گورباچوف کی توقع سے زیادہ وقت لگا۔ آخری سوویت سپاہی نے افغانستان 15 فروری 1989ء کو چھوڑا۔ لیکن جیسا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے مارشل گولڈ مین کہتے ہیں کہ سب کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر روس نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا، تو پھر وہ ایک کاغذی شیر بن کر رہ جائے گا۔ لیکن گورباچوف سمجھ گئے تھے کہ یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ لیکن اس طرح ایسے بیانات بھی سامنے آئے کہ روس کا رعب و داب ختم ہو چکا ہے اور وہ جو کبھی سپر پاور تھا، اب کسی بھی قسم کی پاور نہیں ہے۔
خارجہ پالیسی کے شعبے میں مسٹر گورباچوف کی نئی سوچ، مشرقی یورپ تک پھیل گئی جہاں لوگ کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی ختم کرنے کے لیے بے چین تھے۔ اب مشرقی یورپ کے ملک سوویت فوجوں کے حملے کے اندیشے سے آزاد ہو کر، سیاسی اور اقتصادی طور پر اپنی راہ کا انتخاب خود کر سکتے تھے۔ Archie Brown نے کہا کہ ’’جب ایک بار پتہ چل گیا کہ قومی آزادی کے مطالبوں کے جواب میں سویت فوجی مداخلت نہیں ہو گی، تو یہ سمجھا جانے لگا کہ یہ ملک کمیونزم سے جان چھڑا لیں گے۔ کئی عشرے پہلے ہی وہ ایسا کر لیتے لیکن اس وقت اگر وہ اپنے مقامی لیڈروں سے جان چھڑاتے، تو سوویت روس کی طرف سے مداخلت ضرور ہوتی جیسا کہ ہنگری میں 1956ء میں اور 1968ء میں Czechoslovakia میں ہوا تھا۔ ‘‘
کولمبیا یونیورسٹی کے Robert Legvold کہتے ہیں کہ تاریخ دانوں کے درمیان یہ بحث ہوتی رہے گی کہ سرد جنگ کیوں ختم ہوئی اور سوویت یونین کے زوال کے اسباب کیا تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’’میرا اپنا خیال یہ ہے کہ جب آپ اس پورے معاملے پر غور کریں گے، خاص طور سے جب آپ یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ سب کچھ 1985ء سے 1989ء کے درمیان کیوں ہوا اور اس کے دس یا پندرہ سال بعد کیوں نہیں ہوا تو آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ ان تبدیلیوں کا سہرا بڑی حد تک گورباچوف کے سر ہے۔‘‘
اکتوبر 1990ء میں مسٹر گورباچوف کو امن کے لیے ان کے بہت سے فیصلہ کُن اقدامات کے اعتراف میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔ چودہ مہینوں کے بعد، انھوں نے سوویت صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہوا کہ انھوں نے ایسی طاقتوں کو آزاد کر دیا تھا جنھیں وہ خود کنٹرول نہ کر سکے۔