لندن —
ان دنوں برطانوی شاہی جوڑے کے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے سرکاری دورے کا عالمی ذرائع ابلاغ میں خوب چرچا ہو رہا ہے۔
اس دورے کی سب سے خاص بات شہزادہ ولیم اور شہزادی کیتھرین کے آٹھ ماہ کے صاحبزادے شہزادہ جارج ہیں جو اس وقت میڈیا اور شاہی خاندان سے محبت رکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
مستقبل کے بادشاہ جارج ولیم کے اس پہلے غیر ملکی دورے کو مبصرین کی جانب سے ان کے شاہی کیرئیر کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔
اخبار 'مرر' کے مطابق بدھ کے روز ڈیوک اور ڈچس آف کیمبرج نیوزی لینڈ کے اپنے 10 روزہ دورے کو مکمل کرنے کے بعد آسٹریلیا پہنچے ہیں جہاں وہ سڈنی، برسبین، ایڈیلیڈ اور کینبرا کے مقامات کا دورہ کریں گے۔ سیاست دانوں اور فوجی اہلکاروں سے رسمی ملاقاتیں بھی اس شاہی دورے کا حصہ ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے مطابق شاہی خاندان کے حالیہ سرکاری دورے نے ایک بار پھر ان سنہری یادوں کو زندہ کر دیا ہے جب آج سے تقریباً 30 برس قبل نومولود شہزادہ ولیم نے اپنے والد شہزادہ چارلس اور والدہ شہزادی ڈیانا کی گود میں اسی طرح کیویز کی سرزمین کا سرکاری دورہ کیا تھا۔
شاہی خاندان سے قریبی انسیت رکھنے والوں کا اس دورے کے حوالے سے کہنا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر سے خود کو دہرا رہی ہے۔ جب اپریل 1983ء میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے سرکاری دورے کے موقع پر شہزادی ڈیانا کی گود میں نو ماہ کے شہزادہ ولیم موجود تھے اور شاہی جوڑا بے حد خوش وخرم دکھائی دے رہا تھا بالکل اسی طرح اپریل 2014ء کے سرکاری دورے کے دوران آٹھ ماہ کے شہزادے جارج بھی اپنی والدہ شہزادی کیٹ کی گود میں مسکراتے نظر آرہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ حالیہ شاہی دورہ 30 برس قبل کے سرکاری دورے سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
اس وقت بھی شہزادہ چارلس اور ہر دلعزیز شہزادی ڈیانا کے ننھے صاحبزادے ولیم کا اسی طرح نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں پر تپاک استقبال کیا گیا تھا اور آج بھی دنیا بھر سے ذرائع ابلاغ کے 450 اداروں کے قلم اور کیمرے شاہی دورے کی تازہ تفصیلات کو اسی طرح شہ سرخیوں میں جگہ دے رہے ہیں۔
شہزادہ ولیم کےذاتی سیکریٹری میگیل ہیڈ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ شاہی خاندان کے 19 روزہ دورے کا مقصد دولت مشترکہ کے ان دو اہم ممالک کے اداروں اور ثقافتوں کو فروغ دینا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ شہزادہ ولیم کئی بار ان ممالک کا دورہ کر چکے ہیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ شہزادی کیٹ بھی برطانیہ سے قریبی تعلق رکھنے والے ان ممالک کا دورہ کریں۔
سرکاری دورے کی طوالت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ شاہی جوڑا چاہتا ہے کہ اس سفر کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ یادیں چھوڑ جائیں جنھیں مدتوں یاد رکھا جائے۔
ہیڈ کا کہنا تھا کہ تخت برطانیہ کے دو جانشینوں کے ایک ساتھ سفر کرنے کے لیے ملکہ برطانیہ سے خصوصی اجازت حاصل کی گئی تھی جن کی اجازت کے بغیر دونوں باپ بیٹے کے لیے ایک ہی جہازمیں سفر کرنا ممکن نہیں تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس شاہی دورے کے دوران شہزادہ جارج نے جو ملبوسات پہنے ہیں ان کی سوشل میڈیا میں خوب پذیرائی ہورہی ہے۔ ان کے روایتی بے بی رومپرز کے ڈیزائن ماؤں میں بے حد پسند کیے جارہے ہیں اور اس ڈیزائن سے ملتے جلتے بچوں کے رومپرز کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
برطانوی اخبار 'مرر' لکھتا ہے کہ شہزادہ جارج نے بدھ کو آسٹریلیا آمد پر جو لباس زیب تن کیا ہے وہ ہو بہو ویسا ہی ہے جو 1983 کی ایک تصویر میں شہزادہ ولیم نے پہنا ہوا ہے۔ دوسری جانب شہزادی کیتھرین اور شہزادی ڈیانا کے ملبوسات میں بھی مماثلت تلاش کی جارہی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس دورے میں شہزادی کیٹ کئی بار انھی رنگوں کے ملبوسات میں نظرآئیں جن رنگوں کے ملبوسات کا استعمال شہزادی ڈیانا نے نیوزی لینڈ کے دورے پرکیا تھا۔
شہزادی ڈیانا کی طرح شہزادی کتھرین کی آمد پر بھی نیوزی لینڈ میں روایتی ماوری رقص پیش کیا گیا جس کی ایک رسم میں آپس میں ناک اور پیشانی کا رگڑنا بھی شامل تھا۔
نیوزی لینڈ میں ڈیوک اور ڈچس نے زیادہ تر انھی مقامات کا دورہ کیا جہاں تیس برس قبل ان کے والدین نےاپنی یادیں چھوڑیں تھیں۔
اخبارات کا کہنا ہے کہ شہزادی کتھرین جنھیں فیشن آئیکون کا درجہ حاصل ہے ان دنوں ان کے ملبوسات فیشن انڈسڑی پر چھائے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
شہزادی کیٹ جب نیوزی لینڈ پہنچیں تو انھوں نے سرخ رنگ کا کوٹ زیب تن کر رکھا تھا جس سے 1960ء کے دور کی جیکی کینیڈی کے اسٹائل کی یاد تازہ ہوگئی۔
اس موقع پر انھوں نے ملکہ برطانیہ کا ایک ہیرے کا بروچ، جو نیوزی لینڈ کے قومی نشان کی علامت ہے، بھی استعمال کیا جبکہ آسڑیلیا آمد کے موقع پر شہزادی کیٹ نے آسٹریلیا کی سنہری دھوپ کی مناسبت سے زرد لباس زیب تن کیا ہے جسے فیشن انڈسٹری میں بے حد پسند کیا جارہا ہے۔
شاہی جوڑے کا یہ دورہ 25 اپریل یعنی ان کی شادی کی سالگرہ سے ٹھیک چار روز پہلےاختتام پذیر ہو رہا ہے۔
اس دورے کی سب سے خاص بات شہزادہ ولیم اور شہزادی کیتھرین کے آٹھ ماہ کے صاحبزادے شہزادہ جارج ہیں جو اس وقت میڈیا اور شاہی خاندان سے محبت رکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
مستقبل کے بادشاہ جارج ولیم کے اس پہلے غیر ملکی دورے کو مبصرین کی جانب سے ان کے شاہی کیرئیر کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔
اخبار 'مرر' کے مطابق بدھ کے روز ڈیوک اور ڈچس آف کیمبرج نیوزی لینڈ کے اپنے 10 روزہ دورے کو مکمل کرنے کے بعد آسٹریلیا پہنچے ہیں جہاں وہ سڈنی، برسبین، ایڈیلیڈ اور کینبرا کے مقامات کا دورہ کریں گے۔ سیاست دانوں اور فوجی اہلکاروں سے رسمی ملاقاتیں بھی اس شاہی دورے کا حصہ ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے مطابق شاہی خاندان کے حالیہ سرکاری دورے نے ایک بار پھر ان سنہری یادوں کو زندہ کر دیا ہے جب آج سے تقریباً 30 برس قبل نومولود شہزادہ ولیم نے اپنے والد شہزادہ چارلس اور والدہ شہزادی ڈیانا کی گود میں اسی طرح کیویز کی سرزمین کا سرکاری دورہ کیا تھا۔
شاہی خاندان سے قریبی انسیت رکھنے والوں کا اس دورے کے حوالے سے کہنا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر سے خود کو دہرا رہی ہے۔ جب اپریل 1983ء میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے سرکاری دورے کے موقع پر شہزادی ڈیانا کی گود میں نو ماہ کے شہزادہ ولیم موجود تھے اور شاہی جوڑا بے حد خوش وخرم دکھائی دے رہا تھا بالکل اسی طرح اپریل 2014ء کے سرکاری دورے کے دوران آٹھ ماہ کے شہزادے جارج بھی اپنی والدہ شہزادی کیٹ کی گود میں مسکراتے نظر آرہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ حالیہ شاہی دورہ 30 برس قبل کے سرکاری دورے سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
اس وقت بھی شہزادہ چارلس اور ہر دلعزیز شہزادی ڈیانا کے ننھے صاحبزادے ولیم کا اسی طرح نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں پر تپاک استقبال کیا گیا تھا اور آج بھی دنیا بھر سے ذرائع ابلاغ کے 450 اداروں کے قلم اور کیمرے شاہی دورے کی تازہ تفصیلات کو اسی طرح شہ سرخیوں میں جگہ دے رہے ہیں۔
شہزادہ ولیم کےذاتی سیکریٹری میگیل ہیڈ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ شاہی خاندان کے 19 روزہ دورے کا مقصد دولت مشترکہ کے ان دو اہم ممالک کے اداروں اور ثقافتوں کو فروغ دینا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ شہزادہ ولیم کئی بار ان ممالک کا دورہ کر چکے ہیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ شہزادی کیٹ بھی برطانیہ سے قریبی تعلق رکھنے والے ان ممالک کا دورہ کریں۔
سرکاری دورے کی طوالت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ شاہی جوڑا چاہتا ہے کہ اس سفر کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ یادیں چھوڑ جائیں جنھیں مدتوں یاد رکھا جائے۔
ہیڈ کا کہنا تھا کہ تخت برطانیہ کے دو جانشینوں کے ایک ساتھ سفر کرنے کے لیے ملکہ برطانیہ سے خصوصی اجازت حاصل کی گئی تھی جن کی اجازت کے بغیر دونوں باپ بیٹے کے لیے ایک ہی جہازمیں سفر کرنا ممکن نہیں تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس شاہی دورے کے دوران شہزادہ جارج نے جو ملبوسات پہنے ہیں ان کی سوشل میڈیا میں خوب پذیرائی ہورہی ہے۔ ان کے روایتی بے بی رومپرز کے ڈیزائن ماؤں میں بے حد پسند کیے جارہے ہیں اور اس ڈیزائن سے ملتے جلتے بچوں کے رومپرز کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
برطانوی اخبار 'مرر' لکھتا ہے کہ شہزادہ جارج نے بدھ کو آسٹریلیا آمد پر جو لباس زیب تن کیا ہے وہ ہو بہو ویسا ہی ہے جو 1983 کی ایک تصویر میں شہزادہ ولیم نے پہنا ہوا ہے۔ دوسری جانب شہزادی کیتھرین اور شہزادی ڈیانا کے ملبوسات میں بھی مماثلت تلاش کی جارہی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس دورے میں شہزادی کیٹ کئی بار انھی رنگوں کے ملبوسات میں نظرآئیں جن رنگوں کے ملبوسات کا استعمال شہزادی ڈیانا نے نیوزی لینڈ کے دورے پرکیا تھا۔
شہزادی ڈیانا کی طرح شہزادی کتھرین کی آمد پر بھی نیوزی لینڈ میں روایتی ماوری رقص پیش کیا گیا جس کی ایک رسم میں آپس میں ناک اور پیشانی کا رگڑنا بھی شامل تھا۔
نیوزی لینڈ میں ڈیوک اور ڈچس نے زیادہ تر انھی مقامات کا دورہ کیا جہاں تیس برس قبل ان کے والدین نےاپنی یادیں چھوڑیں تھیں۔
اخبارات کا کہنا ہے کہ شہزادی کتھرین جنھیں فیشن آئیکون کا درجہ حاصل ہے ان دنوں ان کے ملبوسات فیشن انڈسڑی پر چھائے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
شہزادی کیٹ جب نیوزی لینڈ پہنچیں تو انھوں نے سرخ رنگ کا کوٹ زیب تن کر رکھا تھا جس سے 1960ء کے دور کی جیکی کینیڈی کے اسٹائل کی یاد تازہ ہوگئی۔
اس موقع پر انھوں نے ملکہ برطانیہ کا ایک ہیرے کا بروچ، جو نیوزی لینڈ کے قومی نشان کی علامت ہے، بھی استعمال کیا جبکہ آسڑیلیا آمد کے موقع پر شہزادی کیٹ نے آسٹریلیا کی سنہری دھوپ کی مناسبت سے زرد لباس زیب تن کیا ہے جسے فیشن انڈسٹری میں بے حد پسند کیا جارہا ہے۔
شاہی جوڑے کا یہ دورہ 25 اپریل یعنی ان کی شادی کی سالگرہ سے ٹھیک چار روز پہلےاختتام پذیر ہو رہا ہے۔