ایرانی صدر حسن روحانی آئندہ ماہ یورپ کے غیر جانبدار ہمسائیوں، سوٹزرلینڈ اور آسٹریا کا دورہ کریں گے، جس بات کا اعلان اِن حکومتوں کی جانب سے کیا گیا ہے۔ یہ دورہ ایسے میں ہوگا جب امریکہ ایران کے خلاف معاشی تعزیرات عائد کرنے والا ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نےمئی میں ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ وہ ایران کے خلاف پھر سےسخت پابندیاں عائد کریں گے، جس پر یورپی اتحادی برہم ہیں، جن کی کوشش ہے کہ تعلقات بحال رہنے چاہئیں۔
سوٹزرلینڈ یورپی یونین کا رُکن نہیں ہے۔ وہ ایران میں امریکہ اور سعودی مفادات کی نمائندگی کرتا ہے، جب کہ سعودی عرب میں ایران کے مفاد پر نظر رکھتا ہے۔ شیعہ اکثریت والا ایران اور سنی آباد کا طاقتور ملک سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔
ایرانی ٹیلی ویژن نے بتایا ہے کہ اس دورے میں روحانی کے ہمراہ اہلکاروں اور کاروباری منتظمین وفد میں شامل ہوں گے، جس دوران متعدد ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی سمجھوتوں پر دستخط کیے جائیں گے۔
سوٹزرلینڈ کی حکومت کا کہنا ہے کہ روحانی اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف میزبان ملک کے چار وزرا اور صدر الین برسے کے ساتھ دو اور تین جولائی کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ''بات چیت میں ایران کے جوہری سمجھوتے کے بارے میں تازہ ترین معاملوں پر دھیان مرتکز رہے گا۔ گفتگو کا مقصد یہ ہوگا کہ سمجھوتے پر ہونے والی پیش رفت کو قائم رکھنے کا طریقہ کار تلاش کیا جائے، اور علاقے میں جوہری عدم پھیلائو کو یقینی بنایا جائے، حالانکہ امریکہ معاہدے سے الگ ہو چکا ہے''۔
سنہ 2015 میں یورپی یونین کی جانب سے سمجھوتے پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے دستخط کیے تھے، سبھی کا یہی کہنا ہے کہ وہ سمجھوتے کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں، جب کہ کئی ایک کمپنیوں نے ایران میں کاروبار کرنے کے حوالے سے اظہار تشویش کیا ہے، ایسے میں جب امریکی تعزیرات کے خدشات موجود ہیں۔
آسٹریا کے 'اوبربینک' نے گذشتہ ہفتے ایران کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔