امریکہ کےا تحادی یورپی ملکوں – برطانیہ، فرانس اور جرمنی – نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ برقرار رکھیں گے جب کہ ایران نے بھی امریکہ کی جانب سے معاہدہ ختم کرنے کے اعلان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ امریکہ ایران کے ساتھ 2015ء میں کیے جانے والے اس جوہری معاہدے سے الگ ہورہا ہے جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تشکیل سے باز رکھنا تھا۔
امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ کی جانب سے معاہدے کی تنسیخ کے بعد ان کی حکومت ایران پر دوبارہ سخت معاشی تعزیرات عائد کرے گی۔
ایران کے ساتھ مذکورہ معاہدے پر امریکہ کے علاوہ پانچ دیگر عالمی طاقتوں – روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی – نے بھی دستخط کیے تھے۔
معاہدے پر دستخط کرنے والی پانچوں طاقتوں نے امریکی صدر کے منگل کے اعلان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
ایک مشترکہ بیان میں پانچوں ملکوں نے کہا ہے کہ انہیں امریکی فیصلے پر "تشویش اور تحفظات" ہیں۔
فرانس کے وزیرِ خارجہ ژاں شوئی فلدغیاں نے کہا ہے کہ امریکہ کے نکلنے سے معاہدے ختم نہیں ہوا اور بدستور برقرار ہے۔
فرانسیسی وزیرِ خارجہ نے صحافیوں کوبتایا ہے کہ صدر ایمانوئیل میخواں بدھ کو اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے ٹیلی فون پر گفتگو کریں گے تاکہ معاہدے کے مستقبل پر بات چیت کی جاسکے۔
صدر میخواں معاہدے کے سرگرم حمایتی ہیں اور انہوں نے گزشتہ ماہ واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ کو معاہدہ برقرار رکھنے پر قائل کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ صدر میخواں نے امریکی ارکانِ کانگریس سے بھی کہا تھا کہ وہ ایران جوہری معاہدہ برقرار رکھنے کے لیے ٹرمپ حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
اپنی گفتگو میں فرانسیسی وزیرِ خارجہ نے واضح کیا کہ ایران معاہدے میں درج شرائط کی پابندی کر رہا ہے اور اس کے باوجود معاہدے سے امریکہ کے نکلنے سے خطے میں عدم استحکام کا خدشہ ہے۔
یورپی یونین نے بھی کہا ہے کہ وہ معاہدے پر کاربند رہے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ جب تک ایران معاہدے پر عمل درآمد کررہا ہے اس پر وہ اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد نہ کی جائیں جو معاہدے سے قبل اس پر نافذ تھیں۔
جرمنی کے وزیرِ خارجہ ہائیکو ماس نے امریکی اعلان پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ یہ بالکل واضح نہیں کہ امریکی حکام کے ذہن میں معاہدے کے متبادل کے طور پر کیا ہے؟
امریکہ کا قریب ترین یورپی اتحادی برطانیہ پہلے ہی ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ برقرار رکھنے کی حمایت کرچکا ہے اور برطانوی وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے رواں ہفتے اس معاملے پر امریکی حکام سے بات چیت کے لیے واشنگٹن ڈی سی کا دورہ بھی کیا تھا۔
یورپی حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ ہفتے فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے اعلیٰ حکام کی ایرانی حکام سے ملاقات طے پاگئی ہے جس میں مستقبل میں معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھنے کے طریقۂ کار پر بات کی جائے گی۔
روسی حکام بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھنا چاہتے ہیں جب کہ چین کی وزارتِ خارجہ نے بھی امریکی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے معاہدے کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
ایران کے اعلیٰ حکام نے امریکی فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی ہے تاہم ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ان کا ملک معاہدے برقرار رکھنے کے معاملے پر یورپی ملکوں، چین اور روس کے ساتھ بات چیت کرے گا۔