امریکہ کے یورپی اتحادی ملکوں نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی جانب سے ایران پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کے الزامات پر محتاط ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی پاسداری کرے۔
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کئی یورپی سفارت کاروں کو شبہ ہے کہ اسرائیل نے وزیرِاعظم نیتن یاہو کی پیر کی پریس کانفرنس سے قبل وائٹ ہاؤس کو اس بارے میں اعتماد میں لیا تھا۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل کو ایران کی ہزاروں ایسی دستاویزات ملی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کر رہا تھا۔
انہوں نے ایران پر عالمی برادری کو دھوکہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کردیں۔
گو کہ اپنی اس پریس کانفرنس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نے ایران پر جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کا الزام تو عائد نہیں کیا تھا لیکن کئی یورپی تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ دراصل ان کی اس پریس کانفرنس کا مقصد یورپی رہنماؤں کی جانب سے صدر ٹرمپ کو ایران کے ساتھ معاہدہ برقرار رکھنے کے لیے کی جانے والی لابنگ کا توڑ کرنا اور معاہدے کے خلاف امریکہ کے رائے عامہ پر اثر انداز ہونا تھا۔
ٹرمپ حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اگر ایران کے ساتھ 2015ء میں جوہری معاہدے پر امریکہ کے ہمراہ دستخط کرنے والے باقی پانچ ملکوں - روس، چین، جرمنی، فرانس اور برطانیہ - نے ڈیڈلائن سے قبل معاہدے میں موجود "خامیاں" دور نہ کیں تو امریکہ اس معاہدے سے نکل آئے گا اور ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کردے گا۔
البتہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے والی دیگر پانچ عالمی طاقتوں نے تاحال اسرائیل کے ان دعووں پر کسی خاص گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دعووں کے باوجود جوہری معاہدہ برقرار رکھنے کی حمایت کی ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے جوہری معاہدے کے لیے اپنے ملک کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کی پریس کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے کہ تہران حکومت کے جوہری عزائم کو قابو میں رکھنے کے لیے جوہری معاہدے کو برقرار رکھنا کتنا ضروری ہے۔
منگل کو اسرائیلی وزیرِ اعظم کے الزامات پر ردِ عمل دیتے ہوئے بورس جانسن نے کہا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کے بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 2015ء کے معاہدے کے تحت عالمی معائنہ کاروں کو ایران کی جوہری تنصیبات کے معائنے کا جو اختیار دیا گیا ہے، وہ کتنا ضروری اور اہم ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے کے ایک ترجمان نے بھی وزیرِ خارجہ کے اس بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدے کرنے والی عالمی طاقتیں ایران کے جوہری عزائم کے متعلق کبھی بھی کسی خوش فہمی کا شکار نہیں تھیں اور اسی لیے جوہری توانائی کے عالمی ادارے 'آئی اے ای اے' کی جانب سے ایرانی تنصیبات کے تفصیلی اور کڑے معائنے کی شرائط معاہدے میں شامل کی گئیں۔
فرانس کی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے دی جانے والی تفصیلات کے بعد ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کی ضرورت مزید واضح ہوگئی ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موغیرینی نے واضح کیا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دعووں نے اس بارے میں کوئی شک پیدا نہیں کیا کہ ایران معاہدے پر عمل درآمد نہیں کر رہا۔
ایران کے ساتھ معاہدے سے نکل آنے کی بار بار دھمکیوں کے باوجود تاحال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے ایران پر معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کا الزام نہیں لگایا ہے۔ جب کہ معاہدے پر عمل درآمد کی تصدیق کے ذمہ دار ادارے 'آئی اے ای اے' کے حکام کا بھی موقف ہے کہ ایران پوری طرح معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے۔
ایک فرانسیسی سفارت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ پیرس کے حکومتی حلقوں میں عام تاثر یہ ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم کی پریس کانفرنس میں وائٹ ہاؤس کا تعاون بھی شامل تھا۔
سفارت کار نے کہا کہ فرانسیسی حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ صدر ٹرمپ یورپی اتحادیوں کی تمام تر مخالفت اور انہیں قائل کرنے کی کوششوں کے باوجود ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے خود بھی پیر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم کی پریس کانفرنس پر تبصرہ کرتےہوئے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی بہت سی ایرانی دستاویزات ذاتی طور پر دیکھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری معاہدے کی بنیاد نیک نیتی اور شفافیت پر نہیں بلکہ ایران کے جھوٹ اور غلط بیانی پر کھڑی ہے۔
انٹیلی جنس ماہرین اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نے اپنی پریس کانفرنس میں جو دستاویزات دکھائیں ان میں سے بیشتر 2015ء سے قبل اس وقت کی ہیں جب ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان دستاویزات سے یہ تو ظاہر ہوتا ہےکہ 2015ء سے قبل ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کرر ہا تھا لیکن یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا ہے کہ وہ جوہری معاہدہ کرنے کے بعد بھی ایسی کوئی کوشش کر رہا تھا۔
اپنی پریس کانفرنس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ انہیں نصف ٹن وزنی ایسی ایرانی خفیہ دستاویزات ملی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ جوہری ہتھیار تیار نہ کرنے سے متعلق ایرانی قیادت کے دعوے سراسر جھوٹ تھے ۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ 55 ہزار سے زائد یہ ایرانی دستاویزات اور 183 سی ڈیز اس کے انٹیلی جنس اداروں نے حاصل کی ہیں جن میں مبینہ طور پر ایسی سرکاری فائلیں، نقشے، بلیو پرنٹس، تصاویر اور ویڈیوز شامل ہیں جن کا تعلق ایران کے جوہری پروگرام سے ہے۔
اسرائیل نے امریکی حکام کو بھی ان دستاویزات تک رسائی دی ہے اور پیر کو وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ وہ دیگر مغربی ملکوں اور عالمی طاقتوں کو بھی یہ دستاویزات فراہم کریں گے تاکہ ان کے بقول ایران کی دوغلی پالیسی کا پردہ چاک کیا جاسکے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم کی پریس کانفرنس کے فوری بعد وائٹ ہاؤس نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسرائیل کے الزامات کو درست قرار دیا تھا۔