رسائی کے لنکس

امریکہ میں احتجاج: ملکی سیاست میں فوج کے کردار پر سوالات


وائٹ ہاؤس کے قریب مظاہرین اور نیشنل گارڈز کے اہل کار آمنے سامنے۔ 3 جون 2020
وائٹ ہاؤس کے قریب مظاہرین اور نیشنل گارڈز کے اہل کار آمنے سامنے۔ 3 جون 2020

مئی کے آخر میں پولیس کی تحویل میں ایک سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں پھوٹ پڑنے والے مظاہروں اور بدامنی پر کنٹرول کرنے کے لیے کئی شہروں میں فوج تعینات کی گئی تھی، جس پر کئی حلقوں کی جانب سے سولات اٹھائے گئے۔ وائس آف امریکہ کی پینٹاگان کے لیے نمائندہ کیرلا باب نے اپنی رپورٹ میں یہ جائزہ لیا ہے کہ امریکی عوام کے تحٖفظ کے لیے فوج کے غیر سیاسی رہنے کی طویل روایت کی کیا اہمیت ہے۔

اس نکتہ چینی کا آغاز واشنگٹن ڈی سی کی ایک شاہراہ پر پرامن مظاہرین کے خلاف امریکی فوج کے نیشنل گارڈز کو استعمال کرنے کے بعد ہوا جس نے سول سوسائٹی میں فوج کے کردار پر ایک مباحثے کی صورت اختیار کر لی ہے۔

یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے لا سکول سے منسلک ریٹائرڈ جنرل جوزف ووٹل کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی جس سے فوج کے اعتماد کو دھچکا لگا۔

جنرل جوزف ووٹل امریکی سینٹرل کمانڈ کے ایک سابق کمانڈر رہ چکے ہیں۔ وہ اس وقت یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے اخلاقیات اور قانون کے کردار سے متعلق مرکز سے منسلک ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکی فوج کی بنیادی اقدار میں ملکی سیاست سے دور رہنا شامل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک سیاست سے پاک فوج قوم کی بہتر خدمت کر سکتی ہے، اور یہی امریکہ کے بانیوں کا منشا اور خواہش تھی اور یہی وجہ ہے کہ امریکی فوج کو امریکہ کے سب سے محترم ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔

کئی ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی عہدے دار صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی شہروں میں مظاہروں کو روکنے کے لیے ہزاروں حاضر سروس فوجی تعینات کرنے کی دھمکی کے بعد اس پر گفتگو کرنے کے لیے سامنے آئے۔

ایڈمرل ریٹائرڈ مائیک مولن، جو سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف رہ چکے ہیں، نے کہا ہے کہ جب ہم اپنے شہروں اور اپنے عوام پر تسلط قائم کرنے کے امکانی تنازع پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو یہ چیز انتہائی خوف زدہ کر دیتی ہے کہ ہم نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا، جب ہم پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھیں گے اور اس لمحے کو یاد کریں گے، کیونکہ یہ وہ لمحہ تھا جس میں ہمیں حقیقتا کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔

وزیر دفاع ایسپر اور اعلی فوجی عہدے دار بھی صدر کے ساتھ ٖفوٹو سیشن سے قبل لافیا سکوائر کے قریب اس گرجا گھر تک گئے تھے جسے ایک رات قبل مظاہروں کے دوران نقصان پہنچا تھا۔

پنٹاگان کے عہدے دار یہ بات زور دے کر کہہ چکے ہیں کہ نہ ہی جنرل مارک مائلی کو اور نہ ہی وزیر دفاع ایسپر کو صدر ٹرمپ کے ارادوں کا علم تھا اور وہ صرف ان کے ساتھ لافیا سکوائر میں تعینات نیشنل گارڈز کے اہل کاروں کا ان کی خدمات پر شکریہ ادا کرنے گئے تھے۔

ایسپر کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے 'میدان جنگ' جیسے تبصروں پر معذرت کر لی ہے اور جنرل مائلی نے جمعرات کے روز صدر کے ساتھ لافیا سکوائر جانے کے فیصلے کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انہوں نے سیکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے وہاں نہیں جانا چاہیے تھا۔ وہاں میری موجودگی سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جس سے یہ تاثر گیا کہ فوج ملکی سیاسی میں ملوث ہے۔

فوج کا غیر سیاسی کردار روایت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے، کیونکہ فوج کا ہر اہل کار ملازمت شروع کرتے وقت یہ حلف اٹھاتا ہے کہ وہ سیاستت سے دور رہے گا۔

فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے بریڈلی برومین کہتے ہیں کہ فوجی یہ حلف نہیں اٹھاتے کہ وہ صدر کی حمایت اور مدد کریں گے، کسی بھی صدر کی، چاہے وہ ری پبلیکن ہو یا ڈیموکریٹ، چاہے عورت ہو یا مرد، وہ امریکہ کے آئین کی حمایت اور تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں۔

سابق فوجی عہدے دار اپنے ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ صدر ٹرمپ اکثر اوقات اس اہم نکتے کو بھول جاتے ہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔

سابق وزیر دفاع ولیم کوہن کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ میں حکومت کے حوالے سے ملکیت کا احساس بہت زیادہ نظر آتا ہے جب وہ اس طرح کے بیانات دیتے ہیں کہ یہ میری فوج ہے، یا میرے جنرل، یا میرے جج ، تو اس سے ملکیت کا احساس ابھرتا ہے۔

اور اب جب کہ صدارتی انتخابات کو پانچ ماہ سے بھی کم رہ گئے ہیں، کچھ لوگ اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان مباحثوں میں ملکی مسائل میں فوج کا کردار بھی موضوع بن سکتا ہے۔

ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سابق وزیر چارلس جانسن کہتے ہیں کہ ان صدارتی انتخابات میں فی الواقع فوج کا امتحان ہو گا کیونکہ موجودہ صدر انہیں اپنے سیاسی ایجنڈے میں بھی کھینچنے کی کوشش کریں گے۔

XS
SM
MD
LG