''میں اس درد سے تھک چکا ہوں جو ہر دم کسی نئے افریقی امریکی کی موت کی خبر سے محسوس ہوتا ہے۔" یہ الفاظ ہیں فلونیز فلائیڈ کے جو انہوں نے امریکی کانگریس کی جوڈیشیری کمیٹی کی بدھ کے روز ہونے والی سماعت کے دوران کہے۔
وہ بھائی ہیں اس سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کے جو امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں پولیس کی جانب سے گرفتار کرنے کی کارروائی میں ہلاک ہو گیا تھا۔
اس کی موت کی وڈیو منظرِعام پر آتے ہی پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جن میں دیگر مطالبات کے ساتھ یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ پولیس کے رویے میں تبدیلی ضروری ہے۔ پولیس میں اصلاحات لازم ہیں۔ بعض مقامات پر پولیس کا بجٹ بند کر دینے جبکہ بعض جگہ پولیس کے محکمے ہی کو ختم کر دینے کے نعرے بھی بلند ہوئے، جس کی بعد منیاپولس کی سٹی کونسل نے اپنے شہر میں پولیس کا محکمہ ہی ختم کر دینے کی منظوری دی۔
اگرچہ ملک میں اس بارے میں مختلف خیالات پائے جاتے ہیں آیا پولیس کا بجٹ کم کیا جائے، مگر اکثریت چاہتی ہے کہ پولیس میں اصلاحات کی جائیں؛ اور ظاہر ہے ایسا قانون سازی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ، کل ڈیمو کریٹک پارٹی نے اصلاحات کا ایک بل کانگریس میں پیش کیا اور آج ریپبلکن پارٹی نے سینٹ میں اپنی تجاویز پیش کر دی ہیں۔
خیال کیا جا رہا تھا کہ موجودہ احتجاجی مظاہروں کے دوران ریپبلکنز جس طرح بے نیازی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، جس پر انہیں نکتہ چینی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، وہ سینیٹ میں اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس میں اصلاحات کا ڈیموکریٹک بل منظور نہیں ہونے دیں گے۔
مگر امریکہ میں یہ سال انتخابات کا سال ہے اور دونوں پارٹیوں میں سے کوئی بھی کسی سیاسی دھچکے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ احتجاجی مظاہروں میں جس طرح امریکی بلا تفریقِ رنگ و نسل اور کسی سیاسی وابستگی کے شریک ہوئے ہیں اس نے سیاستدانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ عملی طور پر کچھ کر کے دکھائیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کی جانب سے اب پولیس کے نظام میں تبدیلی کی جو تجاویز پیش کی جارہی ہیں ان میں سے کچھ مشترک بھی ہیں جو کہ ایک غیر معمولی بات ہے۔
طلعت رشید ایک عرصے سے ریپبلکن پارٹی سے وابستہ ہیں اور اس کی متعدد کمیٹیوں کے نہ صرف عہدیدار رہ چکے ہیں، بلکہ اس وقت شکاگو کی ول کاؤنٹی میں بولنگ بروکس کے پولیس کمشنر بھی ہیں۔
پولیس میں اصلاحات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں پارٹیوں کو مل کر کام کرنا ہو گا، کیونکہ دونوں کو احساس ہے کہ پولیس کا محکمہ مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ نہی پولیس کے بجٹ میں کمی کا فائدہ ہو گا، کیونکہ ان کے خیال میں، پولیس کی امریکہ میں جس قدر ضرورت ہے اور جتنے گوں نا گوں فرائض پولیس انجام دیتی ہے، ان کو دیکھتے ہوئے یہ ملک پولیس کی افرادی قوت یا اس کے وسائل میں کمی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
علی اکبر مرزا نیویارک میں ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہیں اور سابق امیدوار بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ریپبلکن بل کی تفصیلات ابھی سامنے آنا باقی ہے، تاہم سینیٹ میں ریبپلکنز کی اکثریت اور ایک ریپبلکن صدر کی موجودگی میں انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ ڈیموکریٹس کا کوئی بل کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن، وہ کہتے ہیں کہ اگر دونوں جانب سے کوششوں کی صورت میں عوام کی بہتری کا کوئی منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ اچھا ہو گا۔
پولیس کمشنر طلعت رشید کہتے ہیں کہ ریپبلکنز نے اپنی جو تجاویز تیار کی ہیں انہیں جسٹس ایکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریپبلکن پولیس کی ٹریننگ پر بہت زور دے رہے ہیں۔ اور کوالیفائیڈ امیونیٹی کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت پولیس کو فرائض کی انجام دہی کے دوران کسی بھی ناخوشگوار واقعے یا جرم کے خلاف استثنیٰ حاصل ہے۔
علی اکبر مرزا نے کہا کہ پولیس کو حاصل استثنیٰ کو ختم ہونا چاہئے، کیونکہ پولیس کی یونئینز اور استثنیٰ پولیس والوں کو ہر سزا سے بچا لیتے ہیں۔
علی اکبر مرزا نےکہا کہ اگرچہ عام طور پر کہا جا رہا ہے کہ پولیس نسل کی بنیاد پر امتیاز برتتی ہے، مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا اور بعض موقعوں پر تو سیاہ فام پولیس والے بھی ایسی کارروائی میں شامل دیکھے گئے ہیں، جیسا کہ جارج فلائیڈ کے معاملے میں ایک پولیس افسر سیاہ فام، ایک ایشین اور دو سفید فام تھے۔
تاہم ،انہوں نے کہا کہ پولیس کو کمیونیٹی کی نمائندگی کرنی چاہئے اور اس کا حصہ ہو نا چاہئے۔
پولیس میں ریشئیل پروفائلنگ یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کے بارے میں ریپبلکن طلعت رشید نے کہا کہ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ مگر اس کو ختم نہیں تو کم ضرور ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات ریشیئل پروفائلنگ کی شکایات غلط بھی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریپبلکن دو کمشن بنا رہے ہیں ایک جسٹس ڈیپارٹمنٹ اور ایک کمیونیٹی کے جائزے کیلئے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے علی اکبر مرزا نے کہا کہ پولیس میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ اس میں نفسیاتی اور معاشرتی ماہرین کی شمولیت کی بھی ضرورت ہے جو اسے ایک بہتر ادارہ بنا سکیں۔
پولیس میں اصلاحات اور نسلی امتیاز کے خاتمے کے مطالبات کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے اور ریپبلکنز ہوں یا ڈیموکریٹس، دونوں کیلئے اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔
علی اکبر مرزا کہتے ہیں کہ اب ریپبلکنز امریکی افریقیوں کو نظر انداز نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی ڈیمو کریٹس انہیں فارگرانٹڈ لیں گے۔
کانگریس کی عدالتی کمیٹی میں جارج فلائیڈ کے بھائی کے الفاظ اب بھی گونج رہے ہیں کہ میرے بھائی نے بار بار مدد کیلئے پکارا۔ اس نے بار بار کہا کہ اسے سانس نہیں آرہی۔ کسی نے اس کی بات نہیں سنی۔ اب وہ تو جان سے گیا۔ اب تو بلیک امیریکنز کی بات سن لیجئے۔