رسائی کے لنکس

'آئی بی ایم' چہرے شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی نہیں بنائے گی


کمپیوٹر کمپنی 'آئی بی ایم' نے کہا ہے کہ وہ چہروں کو پہچاننے والی ٹیکنالوجی کے کاروبار سے علیحدہ ہورہی ہے، کیونکہ اسے اس بارے میں خدشات ہیں کہ اسے وسیع پیمانے پر نگرانی اور نسلی شناخت کے لیے کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔

آئی بی ایم کے نئے چیف ایگزیکٹو آفیسر اروند کرشنا نے پیر کو امریکی قانون سازوں کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ کمپنی نے عام مقاصد کے لیے چہرے پہچاننے اور ان کا تجزیہ کرنے والی سافٹ وئیر مصنوعات کی تیاری بند کردی ہے۔

کرشنا کے خط کا مخاطب وہ ڈیموکریٹس تھے جو دوران حراست جارج فلائیڈ اور دوسرے افراد کی ہلاکتوں پر ردعمل کے بعد کانگریس میں پولیس اصلاحات کے لیے قانون سازی پر کام کررہے ہیں۔ ان ہلاکتوں پر دنیا بھر میں نسلی تعصب کے خلاف احتجاج پھوٹ پڑا ہے۔

اصلاحات میں پولیس کے چہروں کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندی شامل ہونے کا امکان ہے۔

آئی بی ایم نے ماضی میں چہرے شناخت کرنے والا سافٹ وئیر نیویارک کے محکمہ پولیس کو استعمال کے لیے دیا تھا۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کے دوسری ریاستوں کی انتظامیہ کے ساتھ معاہدے ہیں یا نہیں۔

پولیس کی جانب سے چہرے شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی حال میں انتہائی درجے کی جانچ پڑتال کی زد میں آئی ہے، کیونکہ تحقیق کرنے والوں کو معلوم ہوا کہ آئی بی ایم، مائیکروسافٹ اور امیزون جیسی کمپنیوں کے بنائے ہوئے نظاموں میں نسلی اور صںفی امتیاز موجود ہے۔

اس کے نتیجے میں آئی بی ایم اور مائیکروسافٹ نے اپنے نظام بہتر بنائے۔ لیکن کرشنا کا کہنا ہے کہ یہ اس مباحثے کا وقت ہے کہ کیا چہرے شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی قانون نافذ کرنے کے ذمے دار مقامی محکموں کو استعمال کرنی چاہیے یا نہیں۔

کرشنا نے اپنے خط میں پولیس اصلاحات پر زور دیا اور کہا کہ آئی بی ایم اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی مخالفت کرتی ہے اور دوسری کمپنیوں کے بھی چہرے پہچاننے والے سافٹ وئیرز سمیت ایسی کسی ٹیکنالوجی کو نظرانداز نہیں کرے گی جسے عوام کی نگرانی، نسلی شناخت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

شہری آزادیوں کے علم بردار نے حالیہ ہفتوں میں اس بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کی نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے یا ان قوانین کو استعمال کیا جارہا ہے جن کا مقصد کرونا وائرس کی وبا کی روک تھام ہے۔

ان مظاہروں سے پہلے ہی امریکی سینیٹرز اس سال نجی معاملات میں مداخلت کی تشویش پر نیویارک کے محکمہ پولیس کی چہرے پہنچاننے والے سافٹ وئیر کی جانچ کررہے تھے۔ اس کی وجہ وہ تحقیقاتی رپورٹس تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا اور دوسری انٹرنیٹ سروسز اربوں تصاویر لے کر لوگوں کی شناخت کا کام کیا جا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG