امریکہ میں جب کہ پولیس کی مبینہ زیادتیوں اور نسلی امتیاز کے مسئلے پر مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، عمرانیات کے ماہرین نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ اس دوران یہ بات بھی مشاہدے میں آرہی ہے کہ اصل مسئلے سے ہٹ کر توجہ دوسری باتوں کی جانب مبدول کرائی جارہی ہے۔ ان کے مطابق اس کا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا جائے۔
مریم گاگوش ویلی کا آبائی تعلق جارجیا سے ہے، سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کی پولیس کی تحویل میں موت پر جب مظاہروں اور بحث و تمحیض کا سلسلہ شروع ہوا، تو ان کے مطابق، انھوں نے محسوس کیا کہ بجائے اس کے اس المیہ پر توجہ مرکوز کی جاتی جس کی وجہ سے مظاہرے شروع ہوئے، تشدد اور لوٹ مار کو زیادہ اجاگر کیا گیا۔
مریم اب نیویارک میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا آبائی تعلق ایسی جگہ سے ہے جہاں ہم نے نوآبادیاتی نظام، نسلی جبر و استبداد، پولیس کی زیادتیوں اور مطلق العنان حکومت کا تجربہ کیا ہے۔ تاہم، دوسری جانب ہمیں رنگ و نسل کی بنیاد پر ان حالات کا سامنا نہیں رہا جو افریقی امریکیوں کو درپیش رہے ہیں، جن کی وجہ سے انھیں صدیوں غلامی، پولیس کے مظالم اور قتل وغارت گری جیسی اذیتوں سے گزرنا پڑا ہے۔
وائس آف امریکہ کے لئے نامہ نگار ماریہ پروس نے بتایا ہے کہ نسلی اور سماجی انصاف کے مسائل کو سماجی رابطوں کے نیٹ ورک پر غلط خبروں کی تشہیر کے لئے اس طرز پر ہوا دی گئی، جس کا مقصد ماہرین کے مطابق، نسلی تعصب کو ابھارنا تھا۔
اس کی حالیہ مثال ڈی سی بلیک آؤٹ ٹوئیٹر ہیش ٹیگ ہے جس میں یہ دعوی ٰکیا گیا کہ حکام نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک احتجاج کے دوران سیل فون اور دوسرے آلات کے سگنل کو بند کردیا تھا، تاکہ پولیس کی جانب سے کسی ممکنہ زیادتی کی رپورٹنگ نہ کی جاسکے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی بلیک آؤٹ کی مہم ایک ایسے اکاؤنٹ سے شروع کی گئی جس سے چند ایک افراد منسلک تھے۔ بعد میں اسے جعلی اکاونٹس کی وجہ سے اچانک مقبولیت حاصل ہوگئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو الجھا دیا جائے تاکہ وہ یہ فیصلہ نہ کرسکیں کہ حقیقت احوال کیا ہے۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ غلط خبروں کی تشہیر سے مکمل طور پر چھٹکارا پانا ناممکن ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ ایسی کسی بھی مہم پر روک لگانا سماجی ہم آہنگی کے لئے سود مند ہے۔
ان کا لوگوں کو مشورہ ہے کہ فوری طور پر کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے غور و فکر کریں اور انھیں جو کچھ بتایا جارہا ہے اس کا تجزیہ کریں اور خود اپنی سوچ اور ذاتی تعصبات کو بھی ذہن میں رکھیں، تاکہ انھیں اس کا ادراک ہوسکے کہ اصل صورتحال کیا ہے اور یہ کہ انھیں استعمال تو نہیں کیا جارہا؟
تاہم، سماجی رابطوں کے ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ کسی بھی بحرانی صورت میں مفاد پرستوں اور ملک دشمن عناصر کی جانب سے سوشل میڈیا کا غلط استعمال اب عام بات ہے اور اس کا دانشمندانہ انداز میں تدارک ہی مسئلے کا حل ہے۔