امریکہ کے شہر منی ایپلس میں ایک سیاہ فام شہری کی پولیس کی تحویل میں موت پر بھڑک اٹھنے والے احتجاجی مظاہروں کو تیسرا ہفتہ شروع ہو چکا ہے۔ اس سانحے کے بعد ہی بڑے پیمانے پر احتجاج نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، جس کے دوران توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔ نسلی امتیاز کے خلاف احتجاجی مظاہرے دنیا کے متعدد شہروں میں بھی کئے گئے۔
امریکہ میں ان مظاہروں اور اس بیانیے میں سیاسی آمیزش بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ اور نومبر کے صدارتی انتخاب میں ان کے متوقع حریف بائیڈن دونوں ہی اس حوالے سے خبروں اور تبصروں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر ٹوئیٹر پر ایسی پوسٹنگ کی ہے جس کا مقصد سیاسی مبصرین کی نظر میں اختلاف کو بڑھانا اور پولیس کے تشدد کو اچھا دکھانا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے لئے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار پیٹسی ویڈا کوسوارا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مبصرین اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب افریقی امریکی آبادی کے لئے وسیع پیمانے پر غیر معمولی ہمدردانہ جذبات پائے جاتے ہیں، صدر ٹرمپ کے بظاہر جارحانہ طرز عمل کے کیا اثرات دیکھنے میں آسکتے ہیں۔
ابھی گزشتہ ہفتے کی بات ہے کہ پچھتر سال کے ایک شخص کی ویڈیو وائرل ہوگئی جسے بفیلو نیویارک میں پولیس نے دھکا دے کر گرا دیا تھا۔ دو پولیس والوں پر اس معاملے میں گرچہ دوسرے درجے کے حملے کا الزام لگایا گیا ہے۔ تاہم، صدر ٹرمپ نے منگل کے دن ایک ٹوئیٹ میں اس تنازعے کو دوبارہ زندہ کر دیا۔
امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ سے منسلک تجزیہ کار نارمن اومسٹائن نے سخت الفاظ میں صدر ٹرمپ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ، بقول ان کے، ایک ایسے سربراہ نہیں جو ملک میں بھونچال کا تجزیہ کرسکیں اور زخم کو مندمل کرنے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوشش کرسکیں۔
ان کے مطابق، صدر ٹرمپ کی حمایت میں کمی دیکھی جاسکتی ہے۔ مبصرین اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ فی الوقت چھہتر فیصد امریکی، جن میں اکہتر فیصد سفید فام شامل ہیں نسل پرستی اور نسلی امتیازی کو امریکہ میں ایک بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں، جبکہ پانچ سال پہلے یہ شرح پچاس فیصد تھی۔
رائے عامہ کے ایک اور جائزے کے مطابق اٹھہتر فیصد امریکی احتجاج کی حمایت کرتے ہیں اور ستاون فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس والے سیاہ فام لوگوں سے عموماً اچھا سلوک نہیں کرتے۔ موجودہ تناظر میں بعض شہروں کے میئر حضرات نے اس بات کی حمایت کی ہے کہ پولیس کے لئے مختص فنڈز کو سماجی خدمات کے لئے استعمال میں لایا جائے۔
صرف چند سال پہلے اس قسم کی سوچ کو انتہا پسندانہ خیال کیا جاتا تھا۔ تاہم، صدر ٹرمپ نے پولیس کی فنڈنگ کو ختم کرنے سے متعلق تجاویز کو رد کردیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کا موقف ہے کہ سیاہ فام لوگوں کے لئے اقتصادی مواقع کو یقینی بنا کر صدر ٹرمپ نسل پرستی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بیشتر پولیس والے اچھے اور محنتی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے پولیس کی تحویل میں مرنے والے سیاہ فام جارج فلائیڈ کے خاندان سے فون پر بات کی ہے۔ لیکن انھوں نے ابھی تک سیاہ فام برادری کے نمائندوں سے ملاقات نہیں کی۔ دوسری جانب ان کے انتخابی حریف بائیڈن جارج فلائیڈ کے اہل خانہ اور سیاہ فام لیڈروں سے ملاقات کرچکے ہیں۔ لیکن انھوں نے پولیس کی فنڈنگ کو روکنے سے متعلق تجویزوں کو بہرحال رد کردیا ہے۔
مبصرین کے مطابق، اس اعتبار سے بائیڈن کو ایک تنگ گزرگاہ کو پار کرنے کا مرحلہ درپیش ہوسکتا ہے۔ اس منظرنامے میں تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ جارج فلائیڈ کا المیہ اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والا طوفان نومبر کے صدارتی انتخاب میں یقیناً مرکزی حیثیت کا حامل ہوگا۔