بھارت نے روہنگیا مسلمانوں کو اپنے یہاں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بھارت بنگلہ سرحد پر سیکورٹی سخت کر دی ہے اور ہلکی طاقت کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
سرحد کی نگرانی کرنے والی بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکاروں کے مطابق، بھارت میں داخل ہونے والوں کو روکنے کے لیے مرچ کے پائوڈر کے اسپرے کے ساتھ انھیں لا شعوری کیفیت میں مبتلا کرنے والے 'گرینیڈ' بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ دراندازی پر قابو پانے کے لیے سخت رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔
ایک سینئر اہلکار نے نئی دہلی میں کہا کہ ''ہم نہیں چاہتے کہ روہنگیا مسلمانوں کو کوئی سنگین چوٹ آئے، یا ہم انھیں گرفتار کریں۔ لیکن، ہم انھیں بھارتی سرزمین پر برداشت نہیں کر سکتے''۔
'بی ایس ایف' کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آر پی جسوال نے کہا ہے کہ بی ایس ایف کے جوانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ روہنگیاوں کو واپس دھکیلنے کے لیے Chilly Grenade اور Stun Grenade کا استعمال کریں۔
بھارت میں اس وقت 40000 روہنگیا مسلمان ہیں اور حکومت نے ان کو میانمار واپس بھیجنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کے ساتھ قدرے معاندانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے جمعرات کے روز ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روہنگیا مسلمان بھارت میں پناہ گزیں نہیں ہے، کیونکہ انھوں نے ضابطے کی کارروائی نہیں کی۔ وہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔
لیکن، اسی پروگرام میں ان کی تقریر کے بعد قومی انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ جسٹس ایچ ایل دتّو نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم حکومت کی پالیسی پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کر سکتے۔ لیکن، ہم روہنگیا مسلمانوں کی مدد اس لیے کر رہے ہیں کہ ان پر میانمار میں ظلم ہو رہا ہے۔ ہم انھیں انسان کی طرح دیکھتے ہیں۔ ان کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے جن کا تحفظ کیا جانا چاہیے''۔
انسانی حقوق کمیشن نے حکومت کو اس بارے میں ایک نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ اس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں چلنے والے مقدمہ میں وہ فریق بننے کی درخواست داخل کرے گا۔
واضح رہے کہ حکومت نے عدالت عظمیٰ میں حلف نامہ داخل کرکے روہنگیا مسلمانوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ، بعض روہنگیاوں کے دہشت گرد گروپوں سے روابط ہیں۔
سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کرنے والے روہنگیا مسلمانوں نے دہشت گرد گروپوں سے کسی بھی قسم کے رابطے کے الزام کی تردید کی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس معاملے کو انسانی بنیاد پر دیکھے۔ نوبیل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی نے بھی حکومت سے انسانی نقطہ نظر اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔