متعدد لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ 'سازش کےنظرئے' کے تحت میانمار میں روہنگیا بحران کے ذرائع ابلاغ کے کوریج میں تعصب کی بو آتی ہے، جو اِس بودھ اکثریتی ملک کے خلاف برتا جا رہا ہے۔
اِس میں یہ الزام بھی شامل ہے کہ 'بی بی سی' میں مسلمانوں کا بہت زیادہ اثر ہے اور یہ کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) اپنی مرضی کی کہانیاں گھڑنے کے لیے غیر ملکی صحافیوں کو رقوم ادا کر رہی ہے۔
یہ شکایتیں وزنی تشویش پر مبنی لگتی ہیں، جن میں کہا جا رہا ہے کہ میڈیا 400000 سے زائد روہنگیا افراد پر ضرورت سے زیادہ دھیان مرکوز کیے ہوئے ہے، جو میانمار میں تشدد کی کارروائی سے بچ نکلے ہیں، اور ماورائے عدالت ہلاکتوں اور قتل عام کے الزامات کی جو داستانیں وہ اپنے ساتھ لائے ہیں وہ بیان کی جارہی ہیں۔
اُن کی حالتِ زار کی باز گشت دنیا کی بڑی طاقتوں تک پہنچی ہے۔ امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے بدھ کو اِس معاملے کو ''رونما ہوتا ہوا عظیم سانحہ'' قرار دیا ہے۔
برعکس اس کے، صحافیوں سیمت متعدد لوگ یہ استفسار کرتے ہیں، پھر راہنما جو یہ روداد پڑھتے ہیں، کہ 'اراکان روہنگیا سالویشن آرمی' کےحملوں کو یا تو نظرانداز کیا جارہا ہے یا جان بوجھ کر اِن کا تذکرہ نہیں کیا جاتا، جن کی وجہ سے ہی یہ فوجی کارروائی شروع ہوئی، اور پھر لاکھوں غیر مسلمان سولین آبادی اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئی، اور بودھوں، ہندوئوں اور دیگر نسلی اقلیتیں بھی اس تنازع میں الجھ کر رہ گئی ہیں۔
آنگ سان سوچی کی تقریر
منگل کے دِن اس بحران پر اپنے پہلے خطاب میں، میانمار کی فی الواقع رانما، آنگ سان سوچی نے اِنہی خیالات کا اظہار کیا، جسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔
اُنھوں نے کہا کہ ''جو لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے اُن کی تعداد کافی ہے۔ نہ صرف مسلمان اور (بودھ) رخائن بلکہ چھوٹے اقلیتی گروپ جیسا کہ دینگ نت، مارئرو، تھیت، میامنگی اور ہندو بھی متاثر ہوئے، جن سے متعلق دنیا بالکل ہی آگاہ نہیں''۔
اُن کے خطاب سے ایک ہفتہ قبل، حکومتی ماتحتی میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ میں شائع کردہ ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ''بین الاقوامی برادری سے تعلق رکھنے والے چند نامور صحافیوں اور دانش وروں کی تحریروں میں اصل حقائق بیان کیے گئے تھے۔ لیکن، غیر ملکی میڈیا کے بے انتہا طاقتور اثر کے باعث تقریباً تمام ہی غائب ہوگئے''۔
لیکن، یہ کیونکر ہوا کہ بین الاقوامی تعصب کا غیر متوقع تاثر ابھرے یا سازش کی جانب خیال جائے؟
رچرڈ ہورسی میانمار کے ایک غیر جانبدار تجزیہ کار ہیں۔ ایک اِی میل میں اُنھوں نے کہا ہے کہ جب کہ 'اراکان روہنگیا سالویشن آرمی' کو بیرون ملک سے رقوم ملی ہیں، جن میں برمی نژاد افراد اور چندہ دینے والےغیر روہنگیا شامل ہیں۔ باہر سے میڈیا کو موصول ہونے والی حمایت کے تانے بانے کو معاشرے میں موجود پرانے اور تاریخی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
بقول اُن کے، ''یہ سوال خاصا پرانہ ہے کہ میانمار کےمسلمان دولت مند ہیں، جو شاید 'مسلمان میڈیا' کو رقوم فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک عام سوچ ہے اور تاریخی طور پر اس کا واسطہ برطانوی راج سے ہے جب ملک کا زیادہ تر کاروباری طبقہ جنوبی ایشیا سے اور مسلمان ہوا کرتا تھا''۔
اُنھوں نے کہا کہ شاید اس کا تعلق میڈیا تنظیموں سے نہیں جن کے خیالات تعصب پر مبنی ہوں، جیسا کہ قطر میں قائم الجزیرہ۔ تاہم، عین ممکن ہے کہ ایسے ادارے ''موجودہ حالات میں صرف نظر سے کام لیں''۔
یہ سوچ معاشرے کے چند طبقوں تک محدود نہیں۔
بودھ وڈیو
آٹھ ستمبر کو میانمار میں انٹرنیٹ پر جاری کی گئی ایک وڈیو میں ایک معروف اور نامور بودھ راحب ایسے ہی خیالات کو درست قرار دے رہے ہیں۔
راحب کے بقول ''بتیس دیہات تباہ ہوئے۔ یہ مسلمان انتہا پسندوں کی کارستانی تھی۔ باون دییات کو نذر آتش کیا گیا۔ لیکن، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے اس کے بارے میں کوئی رپورٹ نہیں دی۔ برعکس اس کے، وہ وہی کچھ لکھ رہے ہیں جو مسلمانوں کے احساسات ہیں، چونکہ فوج نے اُن پر حملہ کیا''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''میڈیا متعصب اور بدعنوان ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اقوام متحدہ تک کو مسلمانوں نے خرید لیا ہے۔ شاید ہمیں وہی کچھ سچ سمجھنا ہے جو مسلمان کر رہے ہیں۔ مسلمانوں نے پہلے ہی 'بی بی سی' کو خرید لیا ہے''۔
فیس بک پر اس وڈیو کو 12 لاکھ لوگوں نے دیکھا ہے۔