آسٹریلیا کے دور دراز کرسمس جزیرے پر تارکین وطن کے حراستی مرکز میں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد مرکز کی باڑیں توڑ دی گئیں اور آتشزدگی کے واقعات ہوئے جس کے بعد وہاں تعینات محافظ مرکز چھوڑ کر چلے گئے۔
پیر کو آسٹریلیا کی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ حراستی مرکز میں ہونے والے فسادات کے بعد ہونے والی تباہی کے بارے میں درست معلومات فراہم کرے۔
کرسمس جزیرے پر حراستی مرکز میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے پناہ گزینوں کو ان غیر ملکیوں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے جنہیں مختلف جرائم میں ملک بدری کا سامنا ہے۔ سیاسی پناہ گزینوں کی اکثریت ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں جنگ زدہ علاقوں سے بھاگ کر آئی ہے۔
آسٹریلیا کے امیگریشن کے وزیر پیٹر ڈٹن نے پارلیمان میں بتایا کہ فسادات مرکز سے فرار ہونے ایک زیر حراست شخص کی موت کے بعد اتوار کو رات 11 بجے شروع ہوئے۔
پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے اس شخص کی شناخت ایرانی کرد پناہ گزین کے طور پر کی ہے جو ہفتے کو فرار ہو گیا تھا۔ امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق تلاش کا کام کرنے والے ٹیموں کو اس کی لاش مرکز سے دور بلند چٹانوں کے نیچے اتوار کو ملی۔
آسٹریلیا میں پناہ ایک اہم سیاسی موضوع ہے۔ متعدد حکومتوں نے عہد کیا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو آسٹریلیا کی سرزمین تک پہنچنے سے روکیں گی۔ پکڑے جانے والے تارکین وطن کو غیر محفوظ کشتیوں پر بٹھا کر کرسمس جزیرے اور جنوبی بحرالکاہل میں پاپوا نیو گنی اور نورو جزائر پر حال ہی میں میں قائم کیے گئے کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
ڈٹن نے پارلیمان میں کہا کہ ’’اگر لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے تو اس کی تحقیقات کی جائیں گی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘‘
مگر حزب اختلاف کی رکن سینیٹر سارہ ہینسن ینگ نے کہا مرکز ’’بحران‘‘سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے حکومت سے وہاں ہونے والے فسادات اور تباہی کی معلومات فراہم کرنے اور اس معاملے میں تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’’میں نے مرکز میں قید افراد سے بات کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مرکز میں بڑے پیمانے پر بدامنی اور آتشزدگی ہو رہی ہے۔‘‘
حراستی مرکز میں قید بہت سے افراد کا تعلق ہمسایہ ملک نیوزی لینڈ سے ہے جو سزا کے خلاف اپنی اپیلوں کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان میں سے متعدد کئی دہائیوں سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم جان کی نے اپنے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فسادات میں حصہ نہ لیں جس سے ان کی قانونی حیثیت کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
حال ہی میں مرکز کا دورہ کرنے والے نیوزی لینڈ کی لیبر پارٹی کے ایک ترجمان نے ریڈیو نیوزی لینڈ کو بتایا کہ توڑ پھوڑ اس وقت شروع ہوئی جب اس موت کے بارے میں سوال کرنے والے ایک زیر حراست شخص کو ایک محافظ نے مارا۔