برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو کے ماراکانا اسٹیڈیم میں کھیلوں کے سب سے بڑے مقابلوں 31 ویں اولمپکس گیمز کا افتتاح ہو گیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ تین ارب لوگوں نے ٹیلی ویژن کے ذریعے اولمپکس کی افتتاحی تقریب دیکھی ہے۔
200 سے زائد ممالک کے ایتھلیٹس کے علاوہ پہلی مرتبہ پناہ گزینوں کی ایک ٹیم بھی بزازیل میں ہونے والے کھیلوں کے ان مقابلوں میں حصہ لے گی۔
پناہ گزینوں کی ٹیم میں 10 ایتھلیٹس شامل ہیں جن میں جنوبی سوڈان، ایتھوپیا، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو اور شام کے کھلاڑی شامل ہیں۔
ان پناہ گزینوں کو اُن ممالک کی اولمپکس کمیٹوں نے منتخب کیا جہاں وہ مقیم ہیں۔ ان کھلاڑیوں میں چھ مرد اور چار خواتین شامل ہیں۔
بزازیل کے عبوری صدر مچل تمر نے اولمپکس کی افتتاحی تقریب کی صدارت کی۔ ملک کی صدر ڈلما روسیف کو ایک مقدمے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ منصب صدارت سے معطل ہیں، تاہم اُنھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں لکھا کہ ’’اس پارٹی (اولمپکس کی افتتاحی کی تقریب میں) شامل نا ہونے پر افسردہ ہوں۔‘‘
درجنوں دیگر ممالک کے سربراہان یا اعلٰی عہدیداروں نے بھی ریو اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔
اولمپکس مقابلوں میں پہلی بار پاکستان کی ہاکی ٹیم کوالیفائی نا کر سکی۔ واضح رہے کہ پاکستانی ہاکی ٹیم اولمپکس چیمپئین رہی ہے۔
اس سال پاکستان کا صرف سات رکنی دستہ اولمپکس مقابلوں میں شریک ہے جن میں دو تیراک، دو نشانہ باز اور دو ایتھلیٹ جب کہ جوڈو کا ایک کھلاڑی شامل ہے۔
اولمپکس مقابلوں میں شرکت کرنے والا امریکی دستہ 554 ایتھلیٹس پر مشتمل ہے اور یہ کسی بھی ایک ملک کا کھلاڑیوں کا سب سے بڑا دستہ ہے۔
ان مقابلوں میں روس کے 271 ایتھلیٹس کو شرکت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ روس نے ریو اولمپکس کے لیے 389 رکنی دستے کا اعلان کیا تھا لیکن باقی روسی ایتھلیٹس کو کارکردگی بڑھانے والی ممنوعہ ادویات سرکاری طور پر استعمال کروانے کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد روکا گیا۔
رنگا رنگ افتتاحی تقریب میں پانچ ہزار رضا کار اور تین سو رقاص شریک رہے، موسیقی اور رضاکاروں کی پرفارمنس سے نا صرف اسٹیڈیم میں موجود تمام افراد بلکہ ٹیلی ویژن پر تقریب دیکھنے والے بھی لطف اندوز ہوئے۔
ریو اولمپکس کے دوران حفاظت کے لیے 85 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات رہیں گے۔
اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے آغاز سے قبل برازیل میں احتجاجی مظاہرہ ہوا، جسے پولیس اہلکاروں نے منتشر کیا۔
چند سو افراد پر مشتمل مظاہرین کھیلوں کے مقابلوں پر بڑے پیمانے پر کیے گئے خرچے اور مبینہ بدعنوانی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
پولیس نے اُنھیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس بھی استعمال کی۔
احتجاج کرنے والے ایک شخص ہارنک منا نے جمعہ کو خبر رساں ادارے ایجنسی ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ ’’کچھ حضرات اولمپک گیمز سے عام لوگوں کو دور رکھنے کے لیے بہانے تلاش کر رہے ہیں، جو شہر کے غریب لوگ ہیں۔ ہمارے شہر میں بڑی نا انصافیاں ہو رہی ہیں، یہ بہت ہی منقسم شہر ہے اور ڈر ہے کہ اولمپک کھیلوں کے بعد ہمارا شہر مزید منقسم اور الگ تھلگ ہو چکا ہوگا‘‘۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ 2016ء کھیل چند لوگوں کو فائدہ پہنچائیں گے جب کہ اُن زیادہ تر لوگوں کو جن کے پاس روزگار، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کا بندوبست نہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔