سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے پاکستان تحریک انصاف کے4 ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے ہیں۔ اراکین کی جانب سے یہ استعفے گزشتہ سال ستمبر میں جمع کرائے گئے تھے۔
بدھ کو اسمبلی اجلاس میں آمد کے وقت میڈیا سے مختصر بات چیت میں آغا سراج درانی نے کہا کہ انہوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح تحریک انصاف کیساتھ معاملات طے ہو جائیں، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
مجموعی طور پر بدھ کو اسمبلی کااجلاس ہنگامہ آرائی کی نظر ہوگیا۔ سندھ کی دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے امن و امان کی صورتحال پر ناصرف حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، بلکہ احتجاجاً واک آوٴٹ بھی کیا۔ متحدہ کے اراکین نے الزام لگایا کہ حکومت سندھ کو امن و امان کے قیام سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لئے، لاء اینڈ آرڈر فوج کے حوالے کیا جائے۔
متحدہ کے رکن صوبائی اسمبلی، سردار احمد کے بقول، ہمارے پارٹی ارکان کا قتل کیا جا رہا ہے؛ جبکہ ایک اور رکن اظہار الحسن نے الزام لگایا کہ سندھ میں حکومت کی رٹ قائم نہیں، اور یہ کہ صوبہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے۔ خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا کہ سندھ میں قتل عام روکنے کیلئے فوج کی ضرورت پڑی تو فوج سے مدد لی جائے۔
ایم کیو ایم کے اس بیان کے جواب میں صوبائی وزیراطلاعات شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ متحدہ کا فوج کو بلانے کا مطالبہ’غیر سنجیدہ‘ ہے۔ اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ اگر فوج بلائی گئی، تو ایم کیو ایم ہی اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والی پہلی جماعت ہوگی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ غلط ہے کہ ایم کیو ایم حکومت کا حصہ نہیں۔ وہ بلواستہ یا بلاواسطہ حکومت کا حصہ ہے، سندھ کے گورنر کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے ہی ہے اور ہر فیصلے کے وقت انہیں اعتماد میں لیا جاتا ہے۔
اس سے قبل پیر کو بھی متحدہ کے رہنما الطاف حسین نے صوبے میں فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا۔