رسائی کے لنکس

افغانستان : بغلان سے سینکڑوں افراد کی نقل مکانی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

گزشتہ ایک ہفتے سے جاری جھڑپوں کی وجہ سے بغلان کے لوگوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

افغانستان کے شمال مشرقی صوبہ بغلان کے ایک علاقے پر طالبان کے بڑے حملے کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں مقامی افراد یہاں سے نقل مکانی کرنے پڑی ہے۔

طالبان عسکریت پسندوں نے بغلان صوبے کے ضلع بغلانِ مرکزی میں رواں ہفتے ایک مربوط حملہ کیا تھا۔

بغلان کے ایک مکین محمد خان جو اپنے خاندان کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی تیاری کر رہا تھا، نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ" طالبان شہر کے مرکز سے نصف سے بھی کم کلومیٹر کے فاصلے پر (موجود) ہیں۔"

"انہوں نے شہر کے پرانے حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔"

طالبان جنجگوؤں نے بغلان اور اس سے متصل قندوز صوبے کو ملانے والی شاہراہ کو بند کر دیا ہے۔ قندوز کو بھی گزشتہ چند ہفتوں کے دوران طالبان کے حملوں کا سامنا رہا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئیڑ پر جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ افغانستان فورسز کو اس ضلع میں طالبان کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔

بغلان کے گورنر عبد الستار بارز نے دعویٰ کیا کہ ضلع میں فوج کی کمک پہنچنے کے بعد طالبان کے حملے کو پسپا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کو بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔

"بغلان مرکزی اور قدیم بغلان میں فوج کی کارروائی کے دوران طالبان کمانڈروں سمیت انہتر عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔"

بارز نے دعویٰ کیا کہ"اس وقت بغلان، قندوز اور مزار (شریف) کابل شاہراہ کھلی ہے "۔

تاہم طالبان کے ترجمان نے اس دعویٰ کو مسترد کیا ہے۔ مزار شریف کابل شاہراہ بغلان کے بیچ سے گزر تی ہے۔

مقامی افراد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بغلان شہر کے مختلف ںواحی علاقوں میں اب بھی شدید جھڑپیں جاری ہیں۔

ایک مقامی شہری حاجی ملک جس کا خاندان دارالحکومت کابل منتقل ہو گیا ہے، نے جمعہ کو وائس آف امریکہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ" ایک سو سے زائد فوجی ٹینک بغلان پہنچ چکے ہیں اور فوج کے دستے شہر کے کئی مقامات پر تعینات کر دئے گئے ہیں۔ تاہم شدید لڑائی اب بھی جاری ہے۔"

ملک نے کہا کہ"سیکڑوں کی تعداد میں خاندانوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔ ان میں سے کئی ایک کابل، مزار شریف اور پل چرخی بھاگ گئے ہیں۔"

"وہ (افراد) جو ضلع چھوڑنے کی سقت نہیں رکھتے وہ ضلع کے اندر ہی محفوظ علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں ۔"

گزشتہ ایک ہفتے سے جاری جھڑپوں کی وجہ سے بغلان کے لوگوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ملک نے کہا کہ"تمام اسکول پیر سے بند ہیں۔"

طالبان عسکریت پسند بغلان صوبے میں سرگرم ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتہ ایک مربوط حملے کے بعد دانائے غوری ضلع پر قبضہ کر لیا تھا۔

صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری کے مکینوں نے ضلع میں سکیورٹی کی صورت حال پر مناسب توجہ نا دینے پر صوبائی حکومت اور سکیورٹی حکام پر تنقید کی۔

پل خمری کے کئی مکینوں نے وائس امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ عسکریت پسند صوبائی دارالحکومت پر حملہ کر سکتے ہیں جو دانائے غوری سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

XS
SM
MD
LG