واشنگٹن —
ایک امریکی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران میں سات سال قبل لاپتہ ہونے والا امریکی باشندہ وہاں 'سی آئی اے' کے ایک جاسوسی مشن پر کام کر رہا تھا جس کی حکومت نے اجازت نہیں دی تھی۔
'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے جمعے کو شائع کی جانے والی اپنی الگ الگ رپورٹوں میں دعویٰ کیا ہے کہ رابرٹ لیونسن دراصل ایران میں امریکی خفیہ ایجنسی 'سی آئی اے' سے منسلک بعض تجزیہ کاروں کے لیے معلومات اکٹھی کر رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 'سی آئی اے' کے یہ تجزیہ کارجاسوسی مشن چلانے کے مجاز نہیں تھے اور اس مشن کا راز فاش ہونے کے بعد 'سی آئی اے' نے ان اہلکاروں کے خلاف تادیبی کاروائی کی تھی۔
رابرٹ لیونسن مارچ 2007ء میں ایران کے جزیرے کیش سے لاپتہ ہوا تھا جہاں وہ، اس کے اہلِ خانہ اور امریکی حکومت کے مطابق "نجی کاروباری دورے" پر گیا تھا۔
لیکن جمعے کو سامنے آنے والی رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لیونسن درحقیقت داؤد صلاح الدین نامی ایرانی شہری سے ملنے کیش گیا تھا جو امریکہ کو تہران میں ایک امریکی سفارت کار کے 1980ء میں ہونے والے قتل کے الزام میں مطلوب تھا۔
رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ لیونسن کے لاپتہ ہونے کے بعد اس کے وکلا نے اسے ملنے والے بعض ایسے ای-میل پیغامات کا پتا چلا یا تھا جس میں 'سی آئی اے' کی ایک تجزیہ کار نے اسے ایران جانے سے قبل یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اس کے دورے کے اخراجات ادا کردیے جائیں گے۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق ای میل پیغامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیونسن 'سی آئی اے' کے تجزیہ کاروں کی ہدایات پر کام کر رہا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'سی آئی اے' نے لیونسن کے لاپتہ ہونے کے معاملے کی محکمہ جاتی تحقیقات بھی کی تھیں جس کے نتیجے میں 10 اہلکاروں کے خلاف تادیبی کاروائی کی گئی تھی۔ ان میں سے تین اہلکاروں کو نوکریوں سے برخواست کردیا گیا تھا۔
بعض اطلاعات کے مطابق 'سی آئی اے' نے لیونسن کے اہلِ خانہ کو 25 لاکھ ڈالر زرِ تلافی بھی ادا کیا تھا تاکہ انہیں ایجنسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے باز رکھا جاسکے۔
امریکہ کی 'نیشنل سکیورٹی کونسل' کی ایک ترجمان نے لیونسن اور امریکی حکومت کے مبینہ تعلق پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ تاہم ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی شہری کی زندگی کو خطرات سے بچانے کی غرض سے حکومتی عہدیداران نے ان رپورٹوں کی اشاعت رکوانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔
'نیشنل سکیورٹی کونسل' کی ترجمان کیٹلین ہیڈن کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت لیونسن کو تلاش کرکے بحفاظت گھر واپس لانے کے لیے کوشاں ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ نے لینوسن کے متعلق ایسی معلومات دینے والے شخص کو 10 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کر رکھا ہے جس سے ان کی بحفاظت واپسی ممکن ہوسکے۔
پینسٹھ سالہ لیونسن کے بارے میں آخری اطلاع 2010ء میں سامنے آئی تھی جب ان کے اہلِ خانہ کو نامعلوم ذریعے سے ان کی ایک مختصر ویڈیو ملی تھی۔ ویڈیو پیغام میں لیونسن نے اپنی رہائی کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بیمار ہیں۔
ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے نہ تو لیونسن کو گرفتار کیا تھا اور نہ ہی اسے ان کے بارے میں کوئی معلومات ہیں۔
'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے جمعے کو شائع کی جانے والی اپنی الگ الگ رپورٹوں میں دعویٰ کیا ہے کہ رابرٹ لیونسن دراصل ایران میں امریکی خفیہ ایجنسی 'سی آئی اے' سے منسلک بعض تجزیہ کاروں کے لیے معلومات اکٹھی کر رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 'سی آئی اے' کے یہ تجزیہ کارجاسوسی مشن چلانے کے مجاز نہیں تھے اور اس مشن کا راز فاش ہونے کے بعد 'سی آئی اے' نے ان اہلکاروں کے خلاف تادیبی کاروائی کی تھی۔
رابرٹ لیونسن مارچ 2007ء میں ایران کے جزیرے کیش سے لاپتہ ہوا تھا جہاں وہ، اس کے اہلِ خانہ اور امریکی حکومت کے مطابق "نجی کاروباری دورے" پر گیا تھا۔
لیکن جمعے کو سامنے آنے والی رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لیونسن درحقیقت داؤد صلاح الدین نامی ایرانی شہری سے ملنے کیش گیا تھا جو امریکہ کو تہران میں ایک امریکی سفارت کار کے 1980ء میں ہونے والے قتل کے الزام میں مطلوب تھا۔
رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ لیونسن کے لاپتہ ہونے کے بعد اس کے وکلا نے اسے ملنے والے بعض ایسے ای-میل پیغامات کا پتا چلا یا تھا جس میں 'سی آئی اے' کی ایک تجزیہ کار نے اسے ایران جانے سے قبل یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اس کے دورے کے اخراجات ادا کردیے جائیں گے۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق ای میل پیغامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیونسن 'سی آئی اے' کے تجزیہ کاروں کی ہدایات پر کام کر رہا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'سی آئی اے' نے لیونسن کے لاپتہ ہونے کے معاملے کی محکمہ جاتی تحقیقات بھی کی تھیں جس کے نتیجے میں 10 اہلکاروں کے خلاف تادیبی کاروائی کی گئی تھی۔ ان میں سے تین اہلکاروں کو نوکریوں سے برخواست کردیا گیا تھا۔
بعض اطلاعات کے مطابق 'سی آئی اے' نے لیونسن کے اہلِ خانہ کو 25 لاکھ ڈالر زرِ تلافی بھی ادا کیا تھا تاکہ انہیں ایجنسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے باز رکھا جاسکے۔
امریکہ کی 'نیشنل سکیورٹی کونسل' کی ایک ترجمان نے لیونسن اور امریکی حکومت کے مبینہ تعلق پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ تاہم ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی شہری کی زندگی کو خطرات سے بچانے کی غرض سے حکومتی عہدیداران نے ان رپورٹوں کی اشاعت رکوانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔
'نیشنل سکیورٹی کونسل' کی ترجمان کیٹلین ہیڈن کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت لیونسن کو تلاش کرکے بحفاظت گھر واپس لانے کے لیے کوشاں ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ نے لینوسن کے متعلق ایسی معلومات دینے والے شخص کو 10 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کر رکھا ہے جس سے ان کی بحفاظت واپسی ممکن ہوسکے۔
پینسٹھ سالہ لیونسن کے بارے میں آخری اطلاع 2010ء میں سامنے آئی تھی جب ان کے اہلِ خانہ کو نامعلوم ذریعے سے ان کی ایک مختصر ویڈیو ملی تھی۔ ویڈیو پیغام میں لیونسن نے اپنی رہائی کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بیمار ہیں۔
ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے نہ تو لیونسن کو گرفتار کیا تھا اور نہ ہی اسے ان کے بارے میں کوئی معلومات ہیں۔