رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری؛ حکومتی اتحاد آئینی ترمیم کے لیے پرعزم، اپوزیشن کی تنقید


  • حکومتی اتحاد کی جانب سے آئینی ترمیم منظور کرانے کی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہو سکیں۔
  • پیر کو آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھی۔
  • آئینی ترمیم آئین میں عدم توازن دُور کرنے کے لیے ناگزیر ہے: خواجہ آصف
  • رات کی تاریکی میں چوری چپکے ترمیم کی کوشش کی گئی: اسد قیصر

اسلام آباد -- ویک اینڈ کی طرح پیر کے دن بھی پاکستان کی پارلیمان مجوزہ آئینی ترمیم کے باعث خبروں کا مرکز رہی۔ ہفتے اور پھر اتوار کو رات گئے تک سیاسی جوڑ توڑ اور رابطوں کے دوران اجلاس پیر کی دوپہر تک ملتوی ہوا تو آئینی ترمیم کی منظوری سے متعلق غیر یقینی برقرار تھی۔

لیکن پیر کو اجلاس کا ایجنڈا سامنے آیا تو اس میں آئینی ترمیم کا ذکر ہی نہیں تھا۔ پیر کو دونوں ایوانوں کے اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیے گئے تو بعض حلقوں کا یہ خیال تھا کہ یہ معاملہ اب کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

لیکن وزیرِ دفاع خواجہ آصف اور وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اتفاقِ رائے کے بعد یہ جوڈیشل پیکج پھر ایوان میں لائیں گے۔

پیر کے دن قومی اسمبلی اور سینیٹ کا علیحدہ علیحدہ اجلاس ساڑھے بارہ بجے شروع ہونا تھا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس تو وقت پر شروع نہیں ہو سکا مگر سینیٹ کا اجلاس وقت پر شروع کر دیا گیا۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی صدارت میں شروع ہونے والے سینیٹ کے اجلاس کو کچھ منٹوں کی کارروائی کے بعد ختم کر دیا گیا۔ سینیٹ کی کارروائی دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کے مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے موقعے پر چوکا مارا ہے۔

سینیٹ کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطا الرحمان نے قراداد پیش کی جس کی کسی جماعت نے مخالفت نہیں کی۔

یہ قرارداد 50 برس قبل احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دن سات ستمبر کو سرکاری چھٹی دینے سے متعلق تھی جسے منظور کر لیا گیا۔ قرارداد کی منظوری کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس 45 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تو وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اتفاقِ رائے ہوا تو ترمیمی بل ایوان میں لائیں گے۔

عام طور پر خواجہ آصف جارحانہ تقریر کرتے ہیں، لیکن پیر کو اُن کی تقریر بظاہر ہفتے اور اتوار کو ہونے والی آنکھ مچولی سے متعلق وضاحت پر مبنی تھی۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ قانون سازی پارلیمان کا حق ہے اور آئین میں موجود عدم توازن کو درست کرنے کے لیے آئینی ترمیم لائیں گے۔

خواجہ اصف نے جب اتفاقِ رائے کا کہا تو اپوزیشن بینچز سے آواز آئی کہ "ہم نہیں کریں گے" جس پر خواجہ آصف برجستہ بولے کہ "آپ بے شک نہ کریں۔"

خواجہ آصف بیٹھے تو تحریکِ انصاف کے اسد قیصر کھڑے ہوئے اور عام طور پر دھیمے لہجے میں بات کرنے والے اسد قیصر خواجہ آصف اور حکومت پر خوب گرجے برسے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو ربر اسٹمپ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ رات کی تاریکی میں چوری چپکے ترمیم لانے کی کوشش کی گئی۔ کیا کسی کے پاس اس ترمیم کا ڈرافٹ ہے؟ اس ترمیم کا نسخہ کہاں سے آیا؟

اسد قیصر کے بعد پیپلزپارٹی کے سید نوید قمر نے اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) سے گلہ کیا کہ 18 ویں ترمیم کے وقت مسلم لیگ (ن) نے آئینی عدالت کی مخالفت کی تھی۔ تاہم ساتھ ہی اُنہوں نے پارٹی پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترامیم ناگزیر ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی شکایت کی کہ ہمیں آسان نہ لیا جائے۔ ہم اتحادی ہیں مسلم لیگ (ن) نہیں ہیں۔

آئینی ترامیم کی منظوری مؤخر، معاملہ کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:36 0:00

تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے بار بار تقریر کا موقع دینے کی درخواست کی مگر اسپیکر نے اُنہیں مائیک نہیں دیا۔ محمود اچکزئی، شاہد اختر علی نے بھی تقریر کی جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بھی غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

اس سے قبل ہفتے کے روز آئینی ترمیمی بل پیش کرنے میں ناکامی کے بعد جب حکومت نے سرکاری چھٹی کا دن ہونے کے باوجود اتوار کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلایا تو دونوں ایوانوں کے اجلاس کی اہمیت بڑھ گئی۔

حکومتی ذرائع بڑے اعتماد سے یہ بتا رہے تھے کہ اتوار کو آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہو کر رہے گی جس کے لیے نمبر گیم پوری ہے۔

ان دعوؤں کے برعکس اتوار کا پورا دن حکومت مولانا فضل الرحمان کو منانے کی کوششیں کرتی رہی جس کے باعث قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس غیر معمولی تاخیر کا شکار ہوا۔

اتوار کو ہونے والے واقعات کے دوران صحافیوں کی بھی رائے تقسیم تھی۔ کسی کا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمان آئینی ترمیمی مسودے پر حکومت سے اتفاق کر چکے ہیں مگر وہ فیس سیونگ اور بدلے میں کچھ مطالبات کر رہے ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس شروع ہونے کے انتظار میں پریس گیلری میں بیٹھے کچھ صحافیوں کو تو یہ بھی کہتے سنا کے مولانا فضل الرحمان کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی گورنر شپ کے علاوہ حکومت میں بھی شیئر مل رہا ہے۔

مولانا کے گھر ہونے والی ملاقاتوں کو کور کرنے والے صحافی مسلسل بتا رہے تھے کے مولانا فضل الرحمان کو منانے میں حکومت کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے۔

سات گھنٹوں کے تاخیر سے جب اتوار کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وہ صرف آٹھ سے نو منٹ کے بعد پیر کے دن ساڑھے بارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا تو صحافی کہنے لگے کہ حکومت کے پاس نمبرز پورے نہیں تھے۔

اتوار کو رائے گئے اجلاس ملتوی ہونے کے باوجود مولانا فضل الرحمان اور دیگر جماعتوں کے سینئر ارکان کے درمیان رابطوں کا سلسلہ جاری رہا۔

اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود حکومت پراُمید ہے کہ آئین میں درستگی کے لیے ناگزیر اس ترمیم کو ہر حال میں منظور کرایا جائے گا۔ تاہم بعض حلقے کہتے ہیں کہ اس معاملے پر حکومت دباؤ کا بھی شکار ہے اور وکلا کمیونٹی کی جانب سے احتجاج کی کال کا عندیہ بھی دیا جا رہا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG