رسائی کے لنکس

مہسا امینی کی دوسری برسی؛ ’خواتین کے احتجاج نے ایران میں بہت کچھ بدل دیا‘


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

  • مہسا امینی کو دو سال قبل ایران میں نافذ خواتین کے ڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا اور حراست کے دوران ان کی موت ہو گئی تھی۔
  • کرد نوجوان خاتون امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
  • امینی کی دوسری برسی پر تہران کی ایون جیل میں قید 34 خواتین نے بھوک ہڑتال کی ہے۔
  • انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایرانی حکومت نے ایران میں اٹھنے والی تحریک کو بندوق کے زور پر کچلا ہے۔
  • مبصرین کے مطابق اگرچہ ایران کی حکومت مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی تحریک کو دبا چکی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایران میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

ویب ڈیسک__ایران میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کو دو برس مکمل ہو گئے ہیں جس کے بعد ملک گیر احتجاج شروع ہوا تھا اور اختلافی آوازیں اٹھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

مہسا امینی کی دوسری برسی پر ایران میں 34 خواتین بھوک ہڑتال کر رہی ہیں۔ ایران میں حکومت کے ناقدین اور خواتین پر جبر کی صورت حال برقرار ہے۔

بائیس سالہ کرد خاتون مہسا امینی کو ایران میں نافذ خواتین کے ڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا جہاں ان کی ہلاکت ہوئی تھی۔

انسانی حقوق کی نوبیل انعام یافتہ ایرانی کارکن نرگس محمدی کی فاؤنڈیشن نے اتوار کو اپنے بیان میں بتایا تھا کہ جیل میں 34 خواتین مہسا امینی کی برسی کے موقع پر بھوک ہڑتال کر رہی ہیں۔

بیان میں بتایا گیا کہ ان خواتین نے حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بھوک ہڑتال کی ہے۔

نرگس محمدی ایران میں خواتین پر حجاب لازمی کرنے کی پابندی اور سزائے موت کے قانون کے خلاف برسوں متحرک رہی ہیں۔ وہ نومبر 2021 سے تہران کے ایون جیل میں قید ہیں۔

انقلاب کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے خلاف گزشتہ چار دہائیوں میں کئی اختلافی آوازیں اور احتجاجی لہریں اٹھتی رہی ہیں۔ تاہم سماجی کارکن اور بیرونِ ملک مقیم سیاسی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کو توقع ہے کہ 16 ستمبر 2022 کو مہسا امینی کی موت بعد پھوٹنے والے احتجاج نے ایران پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق امینی کی موت کے بعد خواتین کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں نے نہ صرف لباس سے متعلق حکومتی ضابطوں کو نہیں للکارا بلکہ مذہبی علما پر قائم حکومتی ڈھانچے کو بھی براہِ راست چیلنج کیا ہے۔

انسانی حقوق کے دیگر گروپس کے مطابق مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں کم از کم 551 افراد ہلاک ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت نے ہزاروں مظاہرین کو حراست میں لیا۔

ایران میں مظاہروں سے جڑے کیسز میں 10 افراد کو سزائے موت دی ہے۔ رواں برس اگست میں ایک نوجوان غلام رضا رئیسی کو مظاہروں کے دوران پاسداران انقلاب کے ایک گارڈ کو قتل کرنے کے الزام میں پھانسی دی گئی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر ڈیانا ایلتھاوے کے کہنا ہے کہ ایران میں بے شمار لوگ مظاہروں پر حکام کے بے رحمانہ کریک ڈاؤن کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔

’جبر میں اضافہ‘

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق حکومت مخالف مظاہروں میں ہلاک یا قید ہونے والے درجنوں افراد کے اہل خانہ کو بھی ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔

ہیومن رائٹس کے لیے ایران کے امور پر تحقیق کرنے والی ناہید نقشبندی کے مطابق ایرانی حکام کی سفاکانہ کارروائیاں دگنی ہو گئی ہیں۔ وہ پہلے مظاہروں میں شریک ہونے والوں کو قید یا موت کی سزائیں دے رہے ہیں اور اس کے بعد ان کے گھر والوں کو بھی جوابدہ بنا رہے ہیں۔

ایسے ہی افراد میں ماشااللہ کریمی بھی شامل ہیں۔ ان کے 22 سالہ بیٹے محمد مہدی کریمی کو جنوری 2023 میں حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے پر سزائے موت دی گئی تھی جس کے بعد انہیں بھی قید کردیا گیا۔

ماشا اللہ کریمی نے اپنے بیٹے کی یاد منانے کے لیے مہم شروع کی تھی جس کے بعد انہیں رواں برس مئی میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی اور اگست میں نو برس کی مزید سزا دے دی گئی۔

اے ایف پی کے مطابق مہسا امینی کی ہلاکت پر ہونے والے احتجاج کے بعد ایرانی حکام نے ردِ عمل میں اسکارف پہنننے پر سختی بڑھا دی۔ اسکارف پہننے کی پابندی ختم کرنا حکومت مخالف مظاہرین کے بنیادی مطالبات میں شامل رہا ہے جس پر ابتدا میں حکام نے کچھ نرم رویہ اختیار کیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایرانی سیکیورٹی فورسز لباس کی پابندیوں پر عمل کرانے کے لیے ایک مکمل منصوبے کے تحت کام کر رہی ہے جسے انہوں نے ’نور پلان‘ کا نام دیا ہے۔ اس کے تحت سڑکوں پر گاڑیوں میں اور پیدل گشت بڑھا دی گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈریس کوڈ پر عمل درآمد کے لیے ایرانی حکام کا خواتین پر جبر مزید شدید ہو گیا ہے اور اب وہ خواتین کو ’زدوکوب کرنے، تماچے اور ٹھوکریں مارنے‘ کے طریقے پر لوٹ گئے ہیں۔

’حالات پلٹ نہیں سکتے‘

تاہم ایران سے باہر مقیم مبصرین کا خیال ہے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے ماتحت حکام کے مظاہرین پر کریک ڈاؤن سے وہ حالات قابو میں تو لے آئے ہیں لیکن ایرانی سوسائٹی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوچکی ہے۔

امریکہ میں قائم ’عبدالرحمان برومند سینٹر فور ہیومن رائٹس‘ کی شریک بانی رویا برومند کا کہنا ہے کہ بہت سی نوجوان خواتین مزاحمت جاری رکھیں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ دو برس کے دوران ایران کی قیادت نہ تو حالات کو پہلی جیسی صورت پر پلٹا سکی ہے اور نہ ہی اپنے کھوئے ہوئے ساکھ کو بحال کر پائی ہے۔

ماہرین کے مطابق رواں برس اگست میں غلام رضا رئیسی کی پھانسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ سزائے موت کے ذریعے مخالفین کو خاموش کرنے کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور جولائی میں صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد صدر منتخب ہونےو الے مسعود پزشکیان کے دور میں یہ پالیسی برقرار رہے گی۔

تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن میں اتفاق اور ہم آہنگی پیدا نہ ہونے کے باعث بھی ایرانی حکومت کے رویے میں تبدیلی نہیں آرہی ہے۔

بوسٹن یونیورسٹی کے فیلو اور مصنف عرش عزیزی کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں نے ایرانی حکومت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی تھیں اور واضح کردیا تھا کہ ایرانی نظام کی پکڑ کے بارے میں کتنی بڑی غلط فہمی کا شکار تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن اپوزیشن لوگوں کو متبادل قوت فراہم کرنے میں دیوالیہ ثابت ہوئی ہے۔

عرش عزیزی کہتے ہیں کہ اس کے باوجود انہیں پورا یقین ہے کہ ایران میں حالات 2022 سے پہلے کی صورتِ حال پر نہیں پلٹیں گے اور آئندہ چند برسوں میں اسلامی جمہوریہ ایران میں بعض بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں آئیں گی۔

اس تحریر کے لیے معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG