پاکستان میں قانون سازی اور شفافیت سے متعلق کام کرنے والے ایک موقر غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں سول اور عسکری قیادت کے درمیان پہلے سے خراب تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
'پلڈاٹ' ہر ماہ ملک میں سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ مرتب کرتا ہے اور تازہ رپورٹ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد کی صورتِ حال کے پسِ منظر میں جاری کی گئی ہے۔
'پلڈاٹ' کے ڈائریکٹر احمد بلال محبوب نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی کی سول حکومتوں میں بھی سول قیادت کے عسکری قیادت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی اور تناؤ رہا ہے لیکن ان میں مزید خرابی ماضی قریب میں دیکھنے میں آئی ہے۔
"کشمکش اور تناؤ تو رہتا ہے لیکن موجودہ حالات میں ایسے لگ رہا ہے کہ یہ کشیدگی ابھر کر اوپر کی سطح پر آ گئی ہے اور اب اس کے اثرات ہمیں شاید کھلے عام دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔۔۔ ادھر سابق وزیراعظم (نواز شریف) کی تقاریر سے ہم سن بھی رہے ہیں کہ وہ اس طرف اشارے دے رہے ہیں۔"
نواز شریف کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد سے نہ صرف وہ خود بلکہ ان کی جماعت کے مختلف راہنما مسلسل کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے تحفظات کے باوجود عدالتی فیصلے کو تسلیم کیا ہے لیکن ان کے بقول یہ منتخب وزیراعظم کے خلاف سازش ہے۔
گو کہ وہ اس سازش کی تفصیل اور سازشی عناصر کی نشاندہی تو برسرعام نہیں کر رہے لیکن ان کی تقاریر پر حزبِ مخالف کے رہنما اور تجزیہ کار کہتے رہے ہیں کہ حکمران جماعت ریاستی اداروں سے شاکی ہے۔
جمعرات کو بھی لاہور جاتے ہوئے راستے میں اپنی ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ گزشتہ 70 برسوں سے منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا جاتا رہا ہے لیکن اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
'پلڈاٹ' نے اپنی رپورٹ میں سول اور عسکری قیادت کے درمیان کشیدگی کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی پالیسی خاص طور پر خارجہ پالیسی پر اتفاقِ رائے نہ ہونا بھی اس کا ایک اہم سبب ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ تعلقات میں تناؤ کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پالیسی پر حرفِ آخر کس کا ہوگا؟
"اسٹیبلشمنٹ میں یہ تاثر ہے کہ ہماری سویلین حکومتیں انتہائی حساس معاملات جیسے ہندوستان کے ساتھ تعلقات، افغانستان کے ساتھ تعلقات یا امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ان چیزوں کے بارے میں گہری سوچ بچار نہیں کرتیں۔۔۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ اصرار کرتی ہے کہ ان کی بنائی ہوئی حکمتِ عملی اور پالیسی پر ہی عمل ہونا چاہیے اور اس پر اتفاق رائے نہیں ہو پاتا۔"
ان کا کہنا تھا کہ ایسے اختلافات کو دور کرنے کا بہترین فورم قومی سلامتی کی کمیٹی ہے لیکن اس کے اجلاس بھی تواتر سے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے معاملات افہام و تفہیم سے حل نہیں ہوپاتے۔
احمد بلال کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان معاملات افہام و تفہیم سے ہی حل ہونے چاہئیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ آخری فیصلے کا اختیار بہرحال ان کے بقول منتخب حکومت کو ہی ہونا چاہیے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت کی طرح ماضی کی حکومتیں بھی ایسے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہتی رہی ہیں کہ سول اور عسکری قیادت ہم خیال ہے۔
نواز شریف اور ان کے جماعت کے عہدیدار بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ اداروں کے درمیان ٹکراؤ کے حامی نہیں۔