پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے تین سال قبل شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن ضرب عضب شروع ہونے پر سرحد پار افغانستان نقل مکانی کر جانے والے قبائلیوں کی وطن واپسی کا عمل شروع ہو گیا ہے اور حکام کے مطابق حالیہ دنوں میں 165 خاندان غلام خان کے راستے بنوں کے قریب باران کیمپ منتقل ہو چکے ہیں۔
ان قبائلیوں میں سے اکثر سکیورٹی حکام کی طرف سے جانچ پڑتال کے سخت انتظامات کی وجہ سے واپس آنے پر آمادہ نہیں تھے جب کہ بعد ازاں فروری میں پاکستان کی طرف سے تقریباً ایک ماہ تک افغان سرحد بند رکھے جانے کے باعث بھی یہ عمل متاثر ہوا تھا۔
لیکن قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے ادارے حکام کے مطابق ان افراد کی واپسی کے انتظامات مکمل ہو چکے ہیں اور تین ہفتوں میں یہ عمل مکمل ہونے کی توقع ہے۔
واپس آنے والے قبائلیوں کو عارضی طور پر بے گھر افراد کے لیے قائم کیمپ میں رکھا جاتا ہے جہاں سے ان کی شناخت اور دیگر کوائف کی تصدیق کے بعد انھیں شمالی وزیرستان بھیج دیا جاتا ہے۔
شمالی وزیرستان کے ایک قبائلی راہنما ملک غلام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک قبائلی جرگے نے حکام سے مل کر ان لوگوں کی واپسی کو سہل بنانے پر مذاکرات کیے تھے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ واپس آ رہے ہیں۔
"ہم نے درخواست کی تھی کہ یہ ہمارے رشتے دار ہیں یہ دہشت گرد نہیں ہیں یہ مجبوری کی حالت میں افغانستان چلے گئے تھے۔ ہم حکومت کے مشکور ہے کہ جو لوگ چلے گئے تھے انھیں واپس لا رہی ہے۔۔۔ابھی خوست کے علاوہ پکتیکا اور دیگر علاقوں میں بھی ہمارے لوگ موجود ہیں انھیں بھی واپس لانے کے لیے کوئی طریقہ وضع کیا جائے۔"
حکام کے مطابق شمالی وزیرستان سے تقریباً آٹھ ہزار خاندان افغان صوبے خوست منتقل ہوئے تھے جب کہ واپسی کا عمل شروع ہونے کے بعد اب تک 1700 خاندان واپس آ چکے ہیں۔