رسائی کے لنکس

شام میں لڑائی میں کمی کے باوجود بچوں کی بھرتی میں اضافہ کیوں ؟


 مسلح تنازعات میں بھرتی کئے جانے والے بچوں میں سے ایک (چائلڈ سولجر )
مسلح تنازعات میں بھرتی کئے جانے والے بچوں میں سے ایک (چائلڈ سولجر )

ویب ڈیسک۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام بھر میں لڑائی میں کمی ہونے کے باوجود مسلح گروپ بچوں کو بڑی تعداد میں بھرتی کر رہے ہیں۔

منگل کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھرتی کئے جانے والے بچوں کی تصدیق شدہ تعداد تین برسوں کے دوران دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور یہ تعداد 2022 میں 1,696 تک پہنچ گئی ۔

بچوں کو بھرتی کرنے والوں میں داعش یا اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں شامل امریکی اتحادی "سیرین ڈیموکریٹک فورسز " بھی شامل ہیں جن کی قیادت کرد کر رہے ہیں۔ شام میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ کچھ بچوں کو تو زبردستی بھرتی کیا جاتا ہے جب کہ کچھ بچے قبائلی وفاداریوں یا پیسوں کی ضرورت کی وجہ سے شمولیت پر مجبور ہوتے ہیں۔

تیرہ برس کی ایک کرد لڑکی پیال عقیل گزشتہ ماہ اسکول جاتے ہوئے لا پتہ ہو گئی ۔ اس لڑکی سے ایک مسلح گروپ سے تعلق رکھنے والے شخص نے رابطہ کیا ۔ یہ گروپ اسے اپنے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دے رہا تھا اور وہ پھر اسے ایک ٹریننگ سکول میں لے گیا۔ اس کے والدین کو اس کے لا پتہ ہونے پر بدترین خدشات لاحق تھے ۔

پیال کی والدہ ہمرین آلاؤجی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر حکام کو شکایت بھی درج کرائی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پیال نے جس گروپ میں شمولیت کی اس کا دعوی تھا کہ وہ اپنی رضامندی سے گروپ میں شامل ہوئی ہے ۔لیکن پیال کی والدہ اس دعوے کو مسترد کرتی ہیں ۔وہ اپنی بیٹی کے کمرے میں بیٹھی انٹرویو دے رہی تھیں جہاں پیال کے کھلونے اوراسکول کی کتابیں پڑی تھیں۔

سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے جنگجو
سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے جنگجو

شام میں گزشتہ بارہ برسوں سے جاری تنازعات اور خانہ جنگی کے دوران مسلح گروہوں نے بچوں کو بھرتی کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں مسلح تصادم میں بچوں کی بھرتی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ شام میں جنگجو بچوں کا استعمال بڑھ رہا ہے حالانکہ شام کے بیشتر حصوں میں لڑائی ختم ہو رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق شام میں مسلح گروہوں کی طرف سے بھرتی کیے جانے والے بچوں کی تعداد میں پچھلے تین برسوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ یہ تعداد سال 2020 میں آٹھ سو تیرہ تھی جو 2021 میں ڑھ کر ایک ہزار دو سو چھیانوے اور 2022 میں ایک ہزار چھ سو چھیانوے ہو گئی۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں بچوں کی بھرتی کے ایک تہائی سے زیادہ کیسز کا تعلق ( جن کی تعداد تقریبا چھ سو سینتیس ہے) ایس ڈی ایف اور شمال مشرقی شام میں ان کے حلیف گروپوں سے ہے۔

شام میں ایک آزاد سول سوسایٹی تنظیم ’سیرینز فار ٹرتھ اینڈ جسٹس‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بسام الاحمد نے بتایا کہ کچھ بچوں کو زبردستی بھرتی کیا جاتا ہے اور کچھ بچے اس لیے بھرتی ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں یا ان کے خاندانوں کو تنخواہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ بچے نظریاتی وجوہات کی بنا پر بھرتی ہوتے ہیں جبکہ دیگر خاندانی اور قبائلی وفاداری نبھاتے ہیں۔ بعض اوقات ان بچوں کو شام سے باہر لڑنے کے لئے بھی بھیجا جاتا ہے۔شام کے ہر حصے میں سرگرم مسلح گروپوں کےجڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے ایسی بھرتیوں کو ختم کرنے کی کوششیں پیچیدہ ہو گئی ہیں۔

2019 میں ایس ڈی ایف نے اقوام متحدہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی بھرتی ختم کرنے اور بچوں کے تحفظ کےلیے متعدد دفاتر قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں اپنے اتحادی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایس ڈی ایف شام میں واحد گروپ ہے جس نے بچوں کے فوجیوں کے طور پر استعمال کو ختم کرنے کے اقوام متحدہ کے مطالبے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔

تاہم ایس ڈی ایف سے منسلک مقامی انتظامیہ کے زیر انتظام بچوں کے تحفظ کے دفاتر میں سے ایک کی ترجمان نودیم شیرو نے تسلیم کیا کہ ایس ڈی ایف کے زیر کنٹرول علاقوں میں بچوں کی بھرتی بدستور جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفتر کو سال کے پہلے پانچ مہینوں میں بیس شکایات موصول ہوئیں۔ چار نابالغ بچے ایس ڈی ایف مسلح افواج میں شامل تھے جنھیں ان کے خاندانوں کو واپس کر دیا گیا جبکہ دوسرے بچے ایس ڈی ایف کے ساتھ نہیں تھے۔

شیرو کا کہنا ہے:’’بعض اوقات والدین فرض کرلیتے ہیں کہ ان کے بچوں کو ایس ڈی ایف نے لے لیا ہے جب کہ وہ کسی دوسرے گروپ کے ساتھ ہوتے ہیں۔انہی گروپوں میں سے ایک گروپ ریوولیشنری یوتھ کا ہے جس کا تعلق کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے سے ہے جو ایک علیحدگی پسند گروپ ہے ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں 2022 میں اس گروپ میں شامل بچوں کی بھرتی کے کیسز کی تعداد دس تھی لیکن اطلاعات کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔‘‘

شام کے تنازعے میں بر سر پیکار ایک خاتوں جنگجو
شام کے تنازعے میں بر سر پیکار ایک خاتوں جنگجو

"ریوولیوشنری یوتھ " نامی گروپ کے ایک اہلکار نے تسلیم کیا کہ یہ گروپ بچوں کو بھرتی کرتا ہے لیکن اس نے انہیں زبردستی بھرتی کرنے سے انکار کیا ہے۔

اسکول جاتے ہوئے راستے میں لاپتہ ہونے والی تیرہ سالہ پیال ایک ماہ کے بعد واپس لوٹ آئی ۔ اس کی والدہ الاؤجی نے بتایا کہ وہ ایک تربیتی کیمپ سے بھاگ کو واپس آئی ہے۔ پیال کی والدہ کے مطابق ان کی بچی ذہنی طور پر پریشان ہے کیونکہ اس کی ٹریننگ بہت سخت تھی ۔ یہ خاندان اب خود کو محفوظ نہیں سمجھتا اور شام کو چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونے کا خواہاں ہے ۔

(اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG