رواں برس اپريل کے مہينے تک گل بہار شيخ يہی سمجھتے رہے کہ ايچ آئی وی صرف مرد اور عورت میں جنسی تعلق سے پھيلتا ہے اگر ان ميں سے کوئی ايک فريق اس مرض ميں پہلے میں مبتلا ہو۔
ايک مقامی ڈاکٹر کے ذريعے انہيں اطلاع ملی کہ لاڑکانہ کی تحصيل رتو ڈيرو ميں بچوں ميں ايچ آئی وی کی وبا تيزی سے پھيل رہی ہے۔
گل بہار شيخ کی عمر43 سال ہے اور وہ سندھ کی تحصيل رتو ڈيرو کے رہائشی ہيں جبکہ پيشے کے لحاظ سے صحافی ہيں۔
ان کی حيرانی ميں اس وقت شديد اضافہ ہوا جب انہيں يہ پتا چلا کہ تمام بچوں کے والدين ايچ آئی وی نيگيٹو ہيں۔ اس حوالے سے انہوں نے ايچ آئی وی سے متاثرہ بچوں کے والدين سے رابطہ کيا تاکہ يہ معلوم کيا جا سکے کہ اس لاعلاج بيماری کے پھيلنے کی وجوہات کيا ہو سکتی ہيں۔
چند ہفتوں ميں يہ تعداد 50 ہو گئی جبکہ ابتدائی تحقيق کے بعد انہوں نے يہ خبر اپنے صحافتی ادارے کو ارسال کی۔ يوں ملک بھر ميں ايک کہرام مچ گيا۔
رتو ڈيرو ميں روزانہ کی بنياد پر اسکريننگ کا آغاز ہو گيا جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ايچ آئی وی کے مريضوں ميں اضافہ شروع ہو گيا۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے گل بہار شيخ نے بتايا کہ ان کی تحقیق کی تمام کڑياں علاقے کے واحد بچوں کے اسپيشلشٹ مظفر گھانگرو پر آ کر رُکيں۔ اس نتيجے پر پہنچنے کے بعد ان کی پريشانی ميں مزيد اضافہ ہوا کيونکہ وہ خود بھی اپنے بچوں کا علاج مظفر گھانگرو سے ہی کرواتے تھے۔
اگلے ماہ، يعنی مئی 2019 کی تپتی صبح گل بہار شيخ بيوی، دو بیٹوں اور پانچ بيٹيوں کے ہمراہ ايچ آئی وی کے ٹيسٹ کے لیے رتو ڈيرو اسکريننگ کيمپ گئے۔
انہوں نے سب سے پہلے اپنا معائنہ کروايا جبکہ کام کے سلسلے ميں دفتر کو چل ديے۔
گل بہار شيخ اپنے کام ميں مشغول تھے کہ ان کی اہليہ کا فون آیا اور انہوں نے بتايا کہ باقی سب کے ٹيسٹ تو ٹھیک ہيں ليکن ان کی دو سالہ بيٹی ردا بتول کا ٹيسٹ مثبت آيا ہے۔
گل بہار کے مطابق کل تک علاقے کے ايچ آئی وی کی کيسز کی خبريں دينے والا خود خبر بن گيا تھا۔
گل بہار کے لیے اپنی بيٹی کا ٹيسٹ مثبت آنا نا قابل قبول تھا کيونکہ انہوں نے اپنی بيٹی کو نہ تو کبھی کہيں سے خون لگوايا تھا اور نہ کوئی ایسا زخم آیا تھا جس کے لیے اسپتال لے کر گئے ہوں۔ حتیٰ کہ اس کے بال تک خود کاٹتے تھے تاکہ حجام کے استعمال شدہ اوزاروں سے کوئی بيماری اس تک منتقل نہ ہو جائے۔
گل بہار شيخ نے نجی اسپتال کی لیبارٹری سے اپنی بيٹی کے دوبارہ ٹيسٹ کروانے کا فيصلہ کيا ليکن وہاں سے بھی نتيجہ مثبت آيا۔
گل بہار کی مشکلات ميں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ديکھنے کو ملا۔ جب وہ رتو ڈيرو اسپتال گئے تو وہاں انہيں معلوم ہوا کہ وہاں پر نہ تو بچوں کے لیے ايچ آئی وی کا ڈاکٹر ہے اور نہ ہی ايچ آئی وی کے مريضوں کو دی جانے والی ادویہ اے آر وی دستیاب ہيں۔
گل بہار شيخ نے اپنی ساری جمع پونجی، اہليہ کا زيور تک اپنی بيٹی کے علاج کے سلسلے ميں بيچ ڈالا اور کراچی سے ردا بتول کا علاج کرانا شروع کر ديا۔
گل بہار کے مطابق وہ اپنے آپ کو پھر بھی خوش قسمت سمجھتے ہيں ورنہ علاقے کے 40 ايسے خاندان ہيں جن کے بچے صرف اس وجہ سے وفات پا گئے جو کہ کراچی آنے جانے اور دوائياں خريدنے کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
ان کے مطابق وہ اپنی بيٹی کو ہر تين ماہ بعد کراچی طبی معائنے کے لیے لے کر جاتے ہيں جسپر تقريبا 40 ہزار روپے خرچ ہوتا ہے۔
گل بہار شیخ کی اہلیہ اکرام فاطمہ لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ کسی رشتے دار کے ہاں شادی پر جاتے ہیں تو اکثر ان سے لوگ پوچھتے ہیں کیا یہ آپ کی بیمار بچی ہے؟ تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ بیمار ہے؟ آئندہ ایسا آپ مت کہیے گا، یہ بیمار نہیں بلکہ ہماری سوچ بیمار ہے۔
گل بہار اور علاقے کے ديگر رہائشی اپنے بچوں کے ايچ آئی وی کے مثبت نتائج کے لیے ڈاکٹر مظفر گھانگرو کو ذمہ دار سمجھتے ہيں۔
سندھ ہيلتھ کيئر کميشن نے ان پر ايف آئی آر درج کی جس ميں ڈاکٹر مظفر گھانگرو پر يہ الزام لگايا گيا کہ ايچ آئی وی کا وائرس ان کی لاپروائی کی وجہ سے بچوں ميں منتقل ہوا۔
ياد رہے کہ مظفر گھانگرو خود بھی ايچ آئی وی پازيٹو ہيں۔
حکومتی اعداو شمار کے مطابق لاڑکانہ مین ایچ آئی وی کی وبا کے باعث اپریل سے نومبر تک 37 ہزار سے زائد افراد کی اسکریننگ کی جا چکی ہے۔ 895 افراد جن میں 754 بچے بھی شامل ہیں، میں مرض کی تصدیق کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور اب ان کا علاج شروع کیا جا چکا ہے۔
اسی طرح 1181 افراد میں ایسے بھی ہیں جن میں ایچ آئی وی ٹیسٹ کا ابتدائی نتیجہ مثبت آیا ہے۔ ان میں 941 بچے بھی شامل ہیں تاہم ابھی ان افراد میں وائرس کی مزید تصدیق باقی ہے۔
سندھ ايڈز کنٹرول پروگرام کے مینيجر ڈاکٹر سکندرعلی ميمن بھی ڈاکٹر مظفر گھانگرو کو رتو ڈيرو ميں وائرس کے پھيلاو کا ذمہ دار ٹھہراتے ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سکندر علی ميمن نے بتايا کہ مظفر گھانگرو کے خلاف غير محفوظ طريقے سے علاج کی آيف آئی آر کٹوائی گئی۔ جس ميں ايک ہی سرنج اور ڈرِپ کا بار بار استعمال کرنا شامل تھا۔
ان کے بقول تفتيش کے دوران ان کی لاپروائی ضرور سامنے آئی کہ انہوں نے مريضوں کی ديکھ بال کے لیے کلینک ميں کوئی خاطر خواہ احتياطی تدابير نہیں اختيار کیں۔
ان کے مطابق ابھی وہ ضمانت پر ہيں ليکن محکمہ صحت سندھ نے انہيں معطل کر دیا ہے۔
ميڈيا رپورٹس کے مطابق مظفر گھانگرو ان تمام الزامات سے انکار انکار کرتے آئے ہيں۔
واضح رہے کہ سندھ کے علاقے رتو ڈيرو کی کُل آبادی ساڑے تين لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ جس ميں سے اب تک 35ہزار افراد کی اسکريننگ ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر سکندر علی ميمن کے مطابق اس وقت پاکستان ميں ایک اندازے کے مطابق 165000 افراد ايچ آئی وی سے متاثرہيں جس ميں صوبہ سندھ سے تقريبا 13000 افراد شامل ہيں۔
ان کے مطابق يہ تعداد درست نہیں ہے کيونکہ پاکستان ميں 40 فيصد ايچ آئی وی سے متاثرہ افراد کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے جس کے مطابق يہ کہا جاسکتا ہے کہ يہ تعداد لگ بھک 60 ہزار ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ رتو ڈيرو پاکستان پيپلز پارٹی (پی پی پی) کے چيئرمين بلاول بھٹو زرداری کا انتخابی حلقہ بھی ہے۔
اپريل 2019 سے لے کر اب تک تقريبا 1200 افراد کے ايچ آئی وی کے نتائج مثبت آئے ہيں جس ميں ساڑھے نو سو بچے شامل ہيں۔
سکندر ميمن کے مطابق شروع ميں ڈاکٹرز اور دوائيوں کی مشکلات ضرور تھيں ليکن اب ايسا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ميں ايچ آئی وی سے متعلق دوائياں گلوبل فنڈ، نيشنل ہيلتھ کے ذریعے مہيا کرتا ہے اور اس وقت دوائيوں اور ڈاکٹرز کی کوئی کمی نہیں ہے۔
انہوں نے بتايا کہ مقامی ڈاکٹرز کو ايچ آئی وی اسپيشلسٹس نے چند ہفتوں کی تربيت دی ہے جبکہ اب ان کو مريض ديکھنے ميں مشکلات نہیں ہیں۔
ڈاکٹر فاطمہ مير کراچی کی آغا خان يونيورسٹی کے شعبہ اطفال و بچوں کی صحت ميں بطور ايسوسی ايٹ پروفيسر تعينات ہيں۔
وہ ان چند ايچ آئی وی اسپيشلسٹ ڈاکٹرز ميں سے ايک ہیں جنہوں نے حکومت سندھ کی درخواست پر لاڑکانہ ميں بچوں کا معائنہ کيا۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فاطمہ میر نے بتايا کہ اپريل کے مہينے ميں جب يہ وبا پھُوٹی تو علاقے ميں ہر طرف خوف و ہراس پھيلا ہوا تھا جبکہ لوگ بہت پريشان تھے۔
ان کے مطابق ابتدائی طور پر صرف دو ہفتوں کے لیے لاڑکانہ گئيں جہاں وہ روزانہ کی بنياد پر تقريبا 80 بچوں کا معائنہ کرتی رہيں۔ ليکن اس کے بعد بھی انہوں نے حسب ضرورت لاڑکانہ کا دورہ کيا۔
ان کا کہنا تھا کہ يہ بات صحيح ہے کہ چند دنوں کی تربيت سے کوئی ايچ آئی وی کے بارے ميں زيادہ تو نہیں سيکھ پاتا ليکن ايچ آئی وی کے حوالے سے ایک طریقہ کار وضع ہے جس کے تحت دوائی دينی ہوتی ہے اور بچے کی تشخيص کرنی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچے بڑوں سے مختلف ہوتے ہيں اور ان کو ديکھنے کی مہارت مہينوں ميں نہیں بلکہ کئی سال ميں آتی ہے۔
گل بہار شيخ اب مقامی ڈاکٹرز سے اپنی بيٹی کا علاج کروانا پسند نہیں کرتے۔ وہ اس غرض سے کراچی کا ہی رُخ کرتے ہيں۔ ان کے مطابق يہاں ان کی تسلی نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر فاطمہ کہتی ہیں کہ مريضوں کی تسلی مختلف چيزوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے اور ضروری نہیں کہ وہ دوائيوں کی ہی بات کر رہے ہوں۔
ان کے بقول اس خطے کے لوگ غريب ہيں ان کے پاس روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہيں۔ گھر ميں اور بھی بہت ساری چيزيں نہیں ہيں۔ ان حالات ميں ايک نئی تکليف ان کے اوپر وارد ہو گئی ہے۔
ڈاکٹر فاطمہ کے مطابق چھوٹے شہروں ميں چونکہ روزانہ کی بنياد پر بہت سارے بچے اسپتال لائے جاتے ہيں اس لیے شاید ڈاکٹرز ان کو زيادہ وقت نہ دے پاتے ہوں اور اس وجہ سے ان کی تسلی نہ ہوتی ہو۔ ان کے مطابق حالات اب بہتری کی جانب بڑھ رہے ہيں اور وہ پُر اميد ہيں کہ بہت جلد مزيد بہتر ہو جائيں گے۔
ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ وہ منفی معاشرتی رویوں کا تقریبا روزانہ ہی سامنا کرتے ہیں۔
تعلقہ رتو ڈیرو کے گاؤں سبحانی خان شر کے رہائشی شہزادو خان شر کا کہنا ہے کہ ان کے چار سالہ بچے میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی جس کے بعد کچھ لوگوں نے ان سے گاؤں چھوڑنے کا مطالبہ بھی کیا۔
شہزادو خان شر نے بتایا کہ جوں ہی معلوم ہوا کہ ان کے چار سالہ بچے کو ایچ آئی وی لاحق ہے تو گاوں والے ان سے ملنے، بات کرنے حتیٰ کہ ہاتھ ملانے سے بھی کترانے لگے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں خطرناک بیماری ہے اس لیے وہ ان سے دور چلے جائیں تاکہ کہیں انہیں یہ بیماری نہ لگ جائے۔
گل بہار شيخ اب صحافت کے ساتھ ساتھ علاقے ميں ايچ آئی وی سے متاثرہ افراد کے لیے آگاہی مہم بھی چلا رہے ہيں۔ شروع کے دنوں ميں لوگوں نے اپنے بچوں کے لیے کھانے کے برتن تک الگ کر لیے تھے۔
ان کے بقول متاثرہ بچوں سے کوئی ہاتھ تک نہیں ملاتا تھا۔ بہت ساری ماووں نے اپنا دودھ تک اپنے بچوں کو پلانا چھوڑ ديا تھا۔
گل بہار شيخ کے مطابق انہيں يہ خدشہ ہے کہ جيسے جيسے يہ بچے بڑے ہوتے جائيں گے تو وہ ڈپريشن اور دماغی بيماريوں ميں مبتلا ہو جائيں گے جبکہ انہيں يہ بھی ڈر ہے کہ کہيں ان متاثرہ بچوں ميں خود کشيوں کا رجحان نہ بن جائے۔
دوسری جانب نيشنل ايڈز کنٹرول پروگرام کے منيجر ڈاکٹر بصير خان اچکزئی کہتے ہیں کہ پاکستان ميں ايچ آئی وی سے متاثرہ کُل رجسٹرڈ تعداد تقريبا 36 ہزار ہے۔مختلف سماجی اور ثقافتی وجوہات کی بنياد پر تمام لوگ اپنے آپ کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے۔
ان کے بقول ايک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان ميں ايچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد لگ بھک ايک لاکھ 65 ہزار تک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رتو ڈيرو ميں ايچ آئی وی کے آوٹ بريک کا يہ مطلب ہر گز نہیں کہ پاکستان ميں تعداد ميں اضافہ ہو گيا ہے بلکہ يہ وہی تعداد ہے جس کا حکومت کو پہلے سے اندازہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر پورے ملک ميں سروے کرايا جائے تو پاکستان کے ہر کونے ميں ايچ آئی وی سے متاثرہ افراد سامنے آ جائيں گے اور يہ تعداد 165000 کے قریب ہی ہو گی۔
ڈاکٹر بصير خان اچکزئی کے مطابق بد قسمتی سے حکومت کی جانب سے اس ضمن ميں ايچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد کے حساب سے فنڈز مہيا نہیں ہو رہے۔
ان کے بقول بين الاقوامی اداروں نے پاکستان کی موجودہ صورت حال کے پيش نظر اپنی امداد دُگنی کر دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ايچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو ملک بھر کے 44 مراکز ميں دوائياں مفت فراہم کی جاتی ہيں۔
ڈاکٹر بصير خان اچکزئی کو خدشہ ہے کہ اگر بين الاقوامی اداروں نے يہ امداد بند کر دی تو يہ بيماری عام لوگوں ميں بھی پھيل جائے گی اور يوں بہت بڑی مشکل کا شکار ہو جائيں گے۔