امریکہ میں تارکین وطن اپنی ثقافت کے ساتھ سا تھ مختلف زبانیں بھی لے کر آتے ہیں۔ جہاں امریکہ میں ہسپانوی، فرانسیسی، اردو اور ہندی جیسی سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں، وہیں مختلف ملکوں کی علاقائی زبانیں بھی یہاں پھل پھول رہی ہیں۔ انہی میں ایک زبان پنجابی بھی ہے۔ امریکی ریاست میری لینڈ میں ثاقب اکرم کی پنجابی شاعری کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پنجابی زبان بولنے اور سمجھنے والوں کوامریکہ میں اکٹھا کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کا رشتہ ان کی زبان سے جڑا رہے۔
ان کا کہناتھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی زبان کے ساتھ خواہ وہ پنجابی ہو ، یا پشتو یا سندھی ، کوئی بھی علاقائی زبان ہو ، ہمیں اس کے ساتھ محبت کرنی چاہیے۔ وہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے ہمارے اظہار کا حصہ ہے۔
اسی اظہار کو انھوں نے اپنی کتاب ، رات چنہاں تے چاننی‘ کی صورت لفظوں میں ڈھالا ہے جس کی تقریب رونمائی یہاں ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں منعقد کی گئی۔ تقریب کی صدارت پاکستانی سٹیج کے معروف ہدایتکار اور اداکار سہیل احمد نے کی ۔
ان کا کہنا تھا کہ ثاقب نے شاعری میں جو لفظ چنے ہیں ، جو خیال ہیں ، ان میں،ایک ایک لفظ میں اپنے ملک اور دھرتی سے محبت ہے جو یادیں ہیں اپنے ملک کی وہ ظاہر ہوتی ہیں۔
تقریب میں شریک دیگر مقامی شعرا کا کہنا تھا کہ بیرون ملک رہنے والوں کو اردو سمیت پاکستان کی دیگر علاقائی زبانوں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کیونکہ اردو کے برعکس علاقائی زبانوں میں مجموعہ کلام چھپوانے کا کام بہت ہی کم شاعروں کے حصے میں آیا ہے ۔
عارف وقار پاکستانی ٹیلی ویژن کا ایک جانا پہچانا نام ہے ، ان کے مطابق آنے والے وقت میں علاقائی زبانیں ، صرف بیرون ملک ہی نہیں بلکہ ان علاقوں میں بھی جہاں یہ بولی جاتی ہیں ، صرف کلچر تک محدود ہو جائیں گی ۔
ان کا کہناتھا کہ انگریزی زبان جس تیزی سے پھیل رہی ہے اس سے دنیا میں اور 25/30 سال تک وہ پوری دنیا میں چھا جائے گی ، اور علاقائی زبانیں صرف کلچر کی حد تک رہ جائیں گی ۔ جس میں ہم شاعری کریں گے لیکن یہ کسی اعلیٰ تر مقصد ، تعلیمی مقاصد یا قومی اور انٹرنیشنل کمیونیکشن کے لیے استعمال نہیں ہوں گی۔
لیکن اس کتاب کی تعارفی تقریب میں شرکت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ان کی آنے والی نسل کو مادری زبان سے جوڑے رکھنے کی کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔