رسائی کے لنکس

جد و جہد آزادی میں اردو شاعری کا حصّہ


برج رائن چکبست
برج رائن چکبست

ادیب اپنی ذاتی زندگی میں خواہ کیسا ہی ہو مگر جب وہ فن کی بات کرتا ہے تو سچائی اور حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جس ملک میں مختلف قسم کی تحریکیں چل رہی ہوں وہاں ادب ان سے متاثر نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ انسانیت کی ناقدری، نا انصافی، رنگ اور نسل کا امتیاز جیسے مسائل جہاں موجود ہوں، وہاں ادیب چپ کیسے رہ سکتا ہے؟ حب الوطنی، سماجی مسائل اور ترقی، جنگ اور امن، رنگ اور نسل، یہ ایسے موضوعات ہیں، جن سے کسی نہ کسی سطح پر ہمارا تعلق ضرور رہتا ہے۔ انسانیت کے خلاف جب جب ظلم ہوگا تو ادیب اپنی آواز ضرور بلند کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا دوسری عالمی جنگ سے نبردآزما تھی تب ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:


بم گھروں پر گریں کہ سر حد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کے پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے

ادب اور سماج کا آپس میں بہت بڑا رشتہ ہے بالخصوص بیسویں صدی کے نصف اول میں، یہ رشتہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہوگیا تھا، جب کہ انگریزوں کے ظلم و ستم اپنی انتہا پر تھے۔ تقسیم بنگال پر پہلی بار یہاں کے عوام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کھل کر کیا۔ اردو شاعری کی تاریخ میں حالی اور شبلی دو ایسے شاعر ہیں، جنہوں نے ملک کی یکجہتی اور حب وطن کا اظہار سب سے پہلے کیا۔

بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو
اٹھو اہل وطن کے دوست بنو
تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر
نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر
ملک ہیں اتفاق سے آزاد
شہر ہیں اتفاق سے آزاد
قوم جب اتفاق کھو بیٹھی
اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی

پنڈت برج نرائن چکبست کا نام اردو شاعری کی تاریخ میں کافی اہم ہے۔ ان کی شاعری میں حب وطن اور قومی یکجہتی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کی شاعری کا زندگی سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ جہد آزادی میں ان کی شاعری وقت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی تھی۔
جکبست کی نظموں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر سیاسی واقعات سے متاثر ہو کر کہی گئی ہیں۔ جوانوں کے جینے کے ڈھنگ پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:


موجود ہے جن بازوؤں میں زور جوانی
طوفان سے انہیں کشتی قومی ہے بچانی
پر ہے مئے غفلت سے سروں میں یہ گرانی
آرام پسندی میں یہ رکھنے نہیں ثانی
پہلو میں کسی کے دل دیوانہ نہیں ہے
ہیں مرد مگر ہمت مردانہ نہیں ہے


اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی نظمیں ہیں جن میں آزادی کے متوالوں کی ہمت کو بڑھانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ اسی طرح اپنی نظموں میں چکبست ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے نوجوانوں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں:


بھنور میں قوم کا بیڑا ہے ہندوؤں ہشیار
اندھیری رات ہے کالی گھٹا ہے اور منجدھار
اگر پڑے رہے غفلت کی نیند میں سرشار
تو زیر موج فنا ہوگا آبرو کا مزار
مٹے گی قوم یہ بیڑا تمام ڈوبے گا
جہاں میں بھیشم وار جن کا نام ڈوبے گا

اسی طرح مسلم نوجوانوں کے خون کو گرماتے ہوئے کہتے ہیں:

دکھا دو جوہر اسلام اے مسلمانوں!
وقار قوم گیا قوم کے نگہبانوں!
ستون ملک کے ہو قدر قومیت جانو!
جفا وطن پہ ہے، فرض وفا کو پہچانو!
نہی علق و مروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شان حمیت کی یادگار ہو تم

یہ ایک طویل نظم ہے، جو پوری طرح سے جوش و خروش میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ملک میں ہوم رول کی مانگ بہت زوروں پر تھی۔ ایسے میں چکبست نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا:

یہ جوش پاک زمانہ دبا نہیں سکتا
رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا
یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا
دلوں میں آکے یہ ارمان جا نہیں سکتا
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

علامہ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز جب وطن سے سرشکار نظموں سے کیا تھا۔ اردو شاعری میں ان کا نام اس وقت سب سے پہلے لیا جاتا ہے، جب ہم روسی انقلاب سے متاثر ہونے والے شاعروں کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں سب سے پہلے مارکسٹ سے اقبال ہی متاثر ہوئے اور کہا:

اٹھومری دنیا کے غریبوں کو جگادو!
کاخ امراء کے درد دیوار ہلا دو!
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقین سے
کنجشاک فرو مایہ کو شاہین سے لڑادو
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور مات

انگریزوں کے خلاف جوش ملیح آبادی کے جذبات کا طوفان آتش فشاں کی طرح پھٹا پڑتا ہے۔ اس سے ، ان کے سینے کے اندر کے طوفان، جلن اور تپش کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔


کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شائد کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈْےہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے، دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
سنبھلوکہ و زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

انگریزوں کے خلاف جوش کے تیور ان کی نظم ’’نعرہ شباب‘‘ میں دیکھنے کے لائق ہے:


دیکھ کر میرے جنوں کو نازفرماتے ہوئے
موت شرماتی ہے میرے سامنے آتے ہوئے
تیرے جھوٹے کفر و ایماں کو مٹا ڈالوں گا میں
ہڈیاں اس کفر و ایماں کو چبا ڈالوں گا میں!
پھر اٹھوں گا ابر کے مانند بل کھاتا ہوا
گھومتا، گھرتا، گرجتا، گونجتا، گاتا ہوا
ولولوں سے برق کے مانند لہراتا ہوا
موت کے سائے میں رہ کر ، موت پر چھایا ہوا
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

اب تک ہم نے جتنے شاعروں کی تخلیقات سے جہد آزادی کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ان سبھی نے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کو جہد آزادی میں حصہ اور آزادی حاصل کرنے کیلئے اکسایا بلکہ وہ خود بھی اس میں بہ نفس نفیس شامل ہوئے۔
مجاز نے عمر کے اعتبار سے بہت ہی کم عمری میں رومان سے انقلاب کی طرف رخ کیا۔ اپنی والہانہ شاعری کی بدولت پورے ملک میں نو عمری ہی میں ان کی ایک پہچان قائم ہوگئی تھی۔ جدوجہد آزادی جیسے جیسے تیز ہوتی گئی ویسے ویسے اردو شاعری کے تیور بھی نکھرتے گئے۔ اس مرحلے پر بھلا وہ پیچھے کیسے رہ سکتے تھے۔ مجاز کی نظم ’’انقلاب‘‘ سے ان کے تیور کی مثال ملاحظہ ہو:


آرہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے
آگ دامن میں چھپائے خون برستاے ہوئے
کوہ صحرا میں زمین سے خون ابلے گا ابھی
رنگ کے بدلے گلوں سے خون ٹپکے گا ابھی
سرکشی کی تند آندھی دم بہ دم چڑھتی ہوئی
ہر طرف یلغار کرتی ہر طرف بڑھتی ہوئی
خون کی ہولی کی جنگل سے ہوائیں آئیں گی
خوں ہی خوں ہوگا نگاہیں جس طرف بھی جائیں گی

یہ نئی لہر جو اٹھی تو آگے اور مضبوط ہوتی چلی گئی۔ تقسیم بنگال سے لے کر آزادی حاصل کرنے تک کوئی ایسا واقعہ، کوئی ایسی تحریک نہیں، جس میں شامل ہونے اور انگریز مخالف آواز کو تیز سے تیز تر کرنے کے لئے اردو شاعری نے اپنی تخلیقات نہ پیش کی ہوں۔

XS
SM
MD
LG