رسائی کے لنکس

کچے میں ڈاکوؤں کی موجودگی؛ سیکیورٹی ادارے کن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • حکومتوں کی عدم دلچسپی اور پولیس کے پاس وسائل کی کمی کے سبب کچے کے ڈاکوؤں کو قابو نہیں کیا جا سکا: سابق آئی جی پنجاب
  • کچے میں تین صوبوں کی سرحدیں ملتی ہیں۔ یہاں ایک مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے: سابق اسسٹنٹ کمشنر
  • مبصرین کے مطابق عدالتوں سے گرفتار ڈاکوؤں کو سزا نہیں ہو پاتی کیوں کہ اُن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہوتے۔
  • مبصرین کا کہنا ہے کہ کچے میں لاکھوں ایکٹر اراضی سرکار کی ملکیت ہے۔ ڈاکو سیاسی وڈیروں کی مدد سے یہاں کاشت کاری کرتے ہیں۔

لاہور—پنجاب اور سندھ کی سرحد پر واقعے کچے کا علاقہ گزشتہ کچھ عرصے سے خبروں میں ہے جہاں پنجاب پولیس ڈاکوؤں کے خلاف ایک بار پھر کارروائی شروع کر چکی ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے متعدد ڈاکوؤں کو گرفتار کر لیا ہے۔

پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق پولیس کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے جس کی نگرانی آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کر رہے ہیں۔

پانچ دن قبل جمعرات کو ضلع رحیم یار خان میں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے پولیس اہلکاروں پر اُس وقت اچانک حملہ کیا تھا جب وہ ڈیوٹی کر کے واپس آ رہے تھے۔ اِس حملے کے نتیجے میں 12 پولیس اہلکار ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے تھے۔

کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف مختلف حکومتوں میں کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس علاقے میں کبھی پائیدار امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔ کچے کے علاقے میں پولیس اہلکاروں کے اغوا اور اُنہیں قتل کرنے کی خبریں ذرائع ابلاغ میں آتی رہتی ہیں۔

کچے کے علاقے میں امن قائم نہ ہونے کے حوالے سے سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید کہتے ہیں کہ اس علاقے میں ڈاکوؤں کو دو وجوہات کی وجہ سے قابو نہیں کیا جا سکا ہے جن میں اولین حکومتوں کی عدم دلچسپی اور دوسری پولیس کے پاس وسائل اور تربیت کی کمی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کچے کے علاقے میں کوئی بھی دیرپا عمل نہیں کیا جاتا۔ وقتی طور پر ایک آپریشن کر دیا جاتا ہے۔ کچھ ڈاکو اِس آپریشن میں مارے جاتے ہیں جب کہ کچھ علاقے خالی کرا لیے جاتے ہیں اور کچھ ڈاکوؤں گرفتاری ہو جاتی ہیں۔

ان کے بقول عدالتوں سے ڈاکوؤں کو سزا نہیں ہو پاتی کیوں کہ اُن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہوتے۔ اس طرح وہ کچھ عرصے کے بعد چھوٹ جاتے ہیں اور وہ دوبارہ سے اپنی کارروائیوں میں متحرک ہو جاتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ کچے کے علاقے میں ایک بند ہے جس پر گاڑی چل سکتی ہے وہ جگہ جگہ سے ٹوٹ جاتا ہے لیکن اُس کی مرمت نہیں کی جاتی۔ اِسی طرح وہاں پر جو پولیس چوکیاں بنائی جاتی ہیں وہ غیر معیاری میٹریل سے بنائی جاتی ہیں۔ ایسی چوکیوں میں جوانوں کے سونے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہوتا اور پولیس اہلکاروں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہوتا۔

سابق اسسٹنٹ کمشنر روجھان عمران منیر کہتے ہیں کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں پر ایک دم قابو نہیں پایا جا سکتا۔ نہ ہی پولیس کے پاس ایسی صلاحیت ہے کہ وہ اِسے ایک دِن میں فتح کر لیں کیوں کہ یہاں تین صوبوں کی سرحدیں ملتی ہیں جس کے لیے ایک مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہر سال گرمیوں میں دریا اور نالوں میں پانی زیادہ آ جانے کے ساتھ ساتھ یہاں جرائم کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ ان کے بقول کچے کے ڈاکو تیراکی میں ماہر ہوتے ہیں جب کہ پولیس اہلکاروں کے پاس اس کی مہارت نہیں ہوتی۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر کچے کے علاقے میں پنجاب کانسٹیبلری کے اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے جن کو نہ علاقے کی صورتِ حال کا اندازہ ہوتا ہے، نہ ہی اُنہیں مقامی زبان آتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کچے میں مقامی پولیس کو بھرتی کر کے ہی جرائم پر طویل مدت میں قابو پایا جا سکتا ہے۔

ضلع راجن پور کے سینئر صحافی اور کتابوں کے مصنف ملک سراج احمد کہتے ہیں کہ پولیس کا کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان کے بقول اس کے لیے علاقے کی جغرافیائی صورتحال کو سمجھنا ہو گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب کے اضلاع ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور سندھ میں ضلع کشمور اور اندرونِ سندھ میں جہاں ایک طرف دریائے سندھ بہتا ہے اور ددسری طرف کوہِ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ اِسی طرح جہاں کوہِ سلیمان کا سلسلہ ختم ہوتا ہے وہی کوہِ کیرتھر کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے اُن کا کہنا تھا کہ کچے کا علاقہ لگ بھگ 100 کلو میٹر پر محیط ہے جس میں بند، سَپ بند اور اِن کیچمنٹ کے علاقے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ جہاں پر بند نہیں ہیں وہاں پر دریا کا پانی پھیلتا ہے۔ یہاں پر سڑکیں نہ ہونے کے سبب آمد و رفت آسان نہیں ہے جب کہ فاصلوں پر چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں۔

پنجاب میں کچے کا علاقے رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع کے اَن سیٹلڈ علاقوں پر مشتمل ہے۔ اِسی طرح کچے کا علاقہ سندھ کے ضلع کشمور اور کندھ کوٹ پر محیط ہے۔

ملک سراج احمد کے بقول مقامی افراد تو یہاں کے راستوں سے واقف ہوتے ہیں۔ اِن آبادیوں میں چھپے جرائم پیشہ افراد آس پاس کی سڑکوں اور دیگر علاقوں میں لوٹ مار کر کے یہاں واپس آ کر چھپ جاتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھاکہ راجن پور میں کچے کے علاقہ میں 20 کلومیٹر پر صرف ایک تھانہ ہے۔ تجربہ کار پولیس افسران کو کچے کے علاقے میں تعینات نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے بھی مسائل سامنے آتے ہیں۔ اُن کے مطابق کچے کے علاقے میں مقامی آبادیوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں جس کی زد میں بعض اوقات پولیس بھی آ جاتی ہے۔

دیرپا منصوبہ بندی کیوں نہیں کی جاتی؟

سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید کہتے ہیں کہ کچے کے علاقے میں صورتِ حال ہر وقت خراب نہیں رہتی۔ یہاں صورتِ حال اُس وقت خراب ہوتی ہے جب دریاؤں میں پانی زیادہ آتا ہے یا اُس وقت جب پانی کا بہاؤ کم ہو جاتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک طرح سے نوگو ایریا ہے وہاں جو کچھ ہوتا رہتا ہے کسی کو کچھ پتا نہیں چلتا۔

ان کے بقول پولیس اُن علاقوں پر توجہ دیتی ہے جو توجہ طلب ہوتے ہیں اور جن کی خبر ذرائع ابلاغ میں زیادہ آتی ہے یا ایسے علاقوں پر توجہ دیتی ہے جہاں آمد و رفت آسان ہوتی ہے۔

صحافی اور مصنف ملک سراج احمد کے بقول سندھ اور پنجاب کے وڈیرے اور سیاسی لوگ کچے کے ڈاکوؤں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ کچے کے علاقے اور اِس سے متصل لاکھوں ایکٹر اراضی سرکار کی ملکیت ہے جہاں پر یہ ڈاکو سیاسی وڈیروں کی مدد سے کاشت کاری کرتے ہیں۔

کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کی جانب سے پولیس ہر حالیہ حملے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب محمد کامران خان نے کہا تھا کہ صرف اگست میں ڈاکوؤں کے حملے سے 17 پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

صحافی اور مصنف ملک سراج احمد کہتے ہیں کہ کچے کے علاقے کو تین صوبوں کی سرحدیں لگتی ہیں۔ جب سندھ کی پولیس آپریشن کرتی ہے تو کچے کے ڈاکو پنجاب کی حدود میں آ جاتے ہیں اور جب پنجاب میں ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو وہ سندھ کی حدود میں چلے جاتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب کی حدود میں کچے کے علاقے میں مقامی قبائل لُمڈ، کُوش اور شَر آباد ہیں جن کی آپس میں خاندانی دشمنیاں بھی ہیں۔ پولیس بھی بعض اوقات اِن خاندانی دشمنیوں کی زد میں آتی ہے کیوں کہ پولیس جب ایک قبیلے کے خلاف ایک گروپ کو استعمال کرتی ہے تو دیگر اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔

حکومتیں توجہ کیوں نہیں دیتی؟

سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید جو ماضی میں ڈی آئی جی بہاولپور بھی تعینات رہے ہیں اور ضلع رحیم یار خان اُن کی کمانڈ میں تھا، بتاتے ہیں کہ کسی بھی حکومت نے کچے کے علاقے میں خاص توجہ نہیں دی جس کے باعث مسائل بڑھ رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ کچے کے علاقے میں بہت سی جگہوں پر تین صوبوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ دو صوبے خاص طور پر پنجاب اور سندھ اپنی اپنی حدود کا دوبارہ تعین کریں اور مشکل علاقے آپس میں بانٹ لیں۔

سابق آئی جی کہتے ہیں کہ جب تک یہاں بنیادی انفراسٹرکچر نہیں بنے گا جرائم پیشہ افراد قابو میں نہیں آئیں گے۔ اِسی طرح وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کو گشت کے لیے ایسی ٹریل موٹر سائیکلیں دی جائیں جو پہاڑوں ریگستانوں پر چلتی ہوں۔

روجھان میں بطور اسسٹنٹ کمشنر فرائض انجام دینے والے عمران منیر بتاتے ہیں کہ کچے کا علاقہ ایک مشکل علاقہ ہے جس کو لاہور میں بیٹھ کر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی کے باعث پولیس اور مقامی انتظامیہ کچے کے علاقوں میں کم ہی جاتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کچے کے علاقے میں تعینات پولیس کو بُلٹ پروف ہیلمٹ، بُلٹ پروف جیکٹس اور دیگر سامان کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ دستیاب نہیں ہوتیں۔

کیا پولیس میں تربیت کا فقدان ہے؟

سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید کے مطابق ضرورت اِس بات کی ہے کہ کچے کے علاقے پر حکومت توجہ دے صرف توجہ کی کمی ہے۔ ان علاقوں سے متعلق پولیس افسران، اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلومات بھی ہیں جب کہ تجربہ بھی ہے۔ لیکن ضروری ساز و سان نہ خریدا جاتا ہے نہ بنیادی انفراسٹرکچر بنایا جاتا ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ لوگوں کو وہاں پوسٹنگ کی جاتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ معمول کی ٹرانسفر پوسٹنگ کی طرح کچے کے علاقے میں بھی افسروں اور اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے۔

صحافی اور مصنف ملک سراج احمد کہتے ہیں کہ اس وقت تمام تجربہ کار افسران فیلڈ پوسٹنگ کے بجائے تھانوں میں تعینات ہیں جب کہ نئے بھرتی ہونے والے غیر تجربہ کار لوگوں کو فیلڈ میں بھیج دیا جاتا ہے جس سے اُن کی جانوں کو خطرہ ہوتا ہے۔

ملک سراج احمد کہتے ہیں کچے کے علاقے میں جب تک پولیس کی چیک پوسٹیں قائم نہیں ہوں گی مسائل حل نہیں ہوں گے۔

ماضی میں اپریل 2016 میں پولیس نے فوج کی مدد سے کچے کے خطرناک ڈاکو چھوٹو گینگ کے سربراہ اور اُس کے دیگر ساتھیوں کو راجن پور کے کچے کے علاقے گرفتار کیا تھا جن کے خلاف قتل، اغوا برائے تاوان اور بھتہ لینے کے مقدمات درج تھے۔

XS
SM
MD
LG