رسائی کے لنکس

غزہ جنگ بندی مذاکرات جاری ہیں مسائل دور کرنے پر کام ہو رہا ہے: وائٹ ہاؤس


وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی.
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی.
  • وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہےکہ غزہ جنگ بندی اور یرغمالوں کے بارے میں معاہدے کے حصول کے لیے قاہرہ مذاکرات میں اب بھی پیش رفت ہورہی ہے۔
  • کربی نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا کہ مذاکرات منقطع ہو چکے ہیں اور کہا کہ اس کے برعکس، وہ "تعمیری" تھے۔
  • اگلا منطقی قدم یہ ہے کہ نچلی سطح پر ورکنگ گروپس بیٹھ کر تمام تر تفصیلات کو آگے بڑھائیں،کربی
  • اس سے قبل مذاکراتی عمل میں ثالثوں کی جانب سے پیش کی گئی متعدد تجاویز پر اسرائیل اور حماس دونوں کی جانب سے عدم اتفاق سامنے آیاتھا: رپورٹس

وائٹ ہاؤس کے مطابق، غزہ جنگ بندی اور یرغمالوں کے بارے میں معاہدے کے حصول کے لیے قاہرہ مذاکرات میں اب بھی پیش رفت ہورہی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے مزید کہا کہ مخصوص مسائل کو حل کرنے کے لیے اگلے چند دن تک ورکنگ گروپوں کی سطح پر بات چیت جاری رہے گی۔

ایک ورچوئل بریفنگ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، کربی نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا کہ مذاکرات منقطع ہو چکے ہیں اور کہا کہ اس کے برعکس، وہ "تعمیری" تھے۔

کربی نے کہا، "مذاکرات دراصل ایک ایسے مقام پر ہیں جہاں انہیں لگا کہ اگلا منطقی قدم یہ ہے کہ نچلی سطح پر ورکنگ گروپس کو بیٹھ کر تمام تر تفصیلات کو آگے بڑھانا چاہیے،" کربی نے کہا۔

انہوں نے مزیدکہا کہ وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے اعلیٰ مشیر بریٹ میک گرک، جو ان مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں، ورکنگ گروپ مذاکرات شروع کرنے کے لیے ایک اضافی دن وہاں رہنے کے بعد جلد ہی قاہرہ سے روانہ ہو جائیں گے۔

کربی نے کہا کہ ورکنگ گروپس کے لیے حل طلب مسائل میں سے ایک حماس کے زیر حراست یرغمالوں اور اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ طے پانے والی تفصیلات میں یہ شامل ہوگا کہ کتنے یرغمالوں کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے، ان کی شناخت کیا ہےاور ان کی ممکنہ رہائی کی رفتار کیا ہوگی۔

کئی مہینوں سے جاری رہنے والی یہ بات چیت غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کو ختم کرنے یا عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے بقیہ یرغمالوں کو رہا کرنے کا معاہدہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مذاکرات کا تازہ ترین دور علاقائی کشیدگی میں اضافے کے خطرے کے دوران عمل میں آیاتھا۔ اختتام ہفتہ حزب اللہ نے اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ اور ڈرون داغے دوسری طرف اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے ایک بڑے حملے کو ناکام بنانے کے لیے تقریباً 100 جیٹ طیاروں سے لبنان پر حملہ کیا۔

تاہم کربی نے کہا کہ ہفتے کے آخر میں سرحد کے آرپار اس جنگ کا مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔

امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں جاری مذاکرات کے اہم نکات میں فلاڈیلفی کوریڈور میں اسرائیلی موجودگی کا مطالبہ شامل ہے، جو مصر کی جنوبی سرحد کے ساتھ غزہ میں 14.5 کلومیٹر طویل زمینی پٹی ہے۔ اسرائیل وہاں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے اور حماس غزہ میں اسرائیلی موجودگی کو مسترد کرتا ہے۔

کربی نے کہا، "اس بارے میں پیش رفت جاری ہے اور مزاکرات میں موجود ہماری ٹیم بات چیت کو تعمیری قرار دیتی ہے۔"

اس سے قبل کی اطلاعات
اتوار کے روز دو مصری ذرائع نے بتایا تھاکہ اسرائیل نے ان متعدد فلسطینیوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے جن کی رہائی کا حماس مطالبہ کر رہا ہے اور اسرائیل نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر انہیں رہا کیا جاتا ہے تو انہیں غزہ سے نکلنا ہوگا۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کینیڈا میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ امریکہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی بازیابی کے لیے کام کر رہا تھا۔

’رائٹرز‘ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ثالثوں نے فلاڈیلفی کوریڈور اور غزہ کو بالکل درمیان سے تقسیم کرنے والے نیٹزارم کوریڈور میں اسرائیلی فورسز کی موجودگی کے حوالے سے کئی متبادل تجاویز پیش کیں۔ لیکن فریقین نے ان تجاویز کو قبول نہیں کیا۔

اسی طرح فریقین میں غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور زیرِ حراست افراد کی رہائی کے حوالے سے بھی عدم اتفاق موجود تھا۔

امریکی حکام کے بقول فریقین میں موجود خلا کو کم کرنے کے لیے گزشتہ تین سے چار روز کے دوران امریکہ، مصر اور اسرائیلی مذاکرات کاروں میں کافی بات چیت بھی ہوئی۔

غزہ کی پٹی میں موجودہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اس کے بعدشروع ہوئی تھی جب حماس نے اسرائیلی کمیونٹیز پر دہشت گرد حملہ کیا ، جس میں اسرائیل کے اعدادو شمار کے مطابق، تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور تقریباً 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔

اس کے بعد سے اسرائیلی فوج نے جوابی کارروائی میں غزہ کے گھرے ہوئے علاقے کا بڑا حصہ کھنڈر بنا دیا ہے ،فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، کم از کم 40,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اس کے تقریباً 23 لاکھ لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، جس سے ہلاکت خیز بھوک اور بیماری میں اضافہ ہوا ہے ۔

یہ رپورٹ رائٹرز کی اطلاعات پر مبنی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG