رسائی کے لنکس

بارہ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت: پاکستان میں 'کچے' کے ڈاکو قابو کیوں نہیں آتے؟


جمعرات کی شب کچے میں ڈاکوؤں نے ایک حملے میں 12 پولیس اہلکار ہلاک کردیے تھے۔
جمعرات کی شب کچے میں ڈاکوؤں نے ایک حملے میں 12 پولیس اہلکار ہلاک کردیے تھے۔
  • رحیم یار خان کے علاقے کچھ ماچھکہ میں ڈاکوؤں نے پولیس پر حملہ کیا۔
  • ڈاکوؤں کے حملے میں 12 پولیس اہلکار ہلاک جب کہ آٹھ زخمی ہوگئے۔
  • پولیس نے جوابی کارروائی میں حملے کا مرکزی ملزم ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
  • یہ بڑا سانحہ اور پنجاب پولیس کا بڑا نقصان ہے۔ اس حملے میں جن لوگوں نے اپنی جانیں دی ہیں وہ رائیگاں نہیں جانے دیں گے: ایڈیشنل آئی جی پولیس
  • حملے کے نتیجے میں ایلیٹ پولیس کے ایک اہلکار احمد نواز کے لاپتا ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
  • کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ سال سے آپریشن چل رہا ہے: ایڈیشنل آئی جی پولیس

لاہور — صوبۂ پنجاب میں کچھ ماچھکہ کے علاقے میں ڈاکوؤں کے پولیس پر حملے کے بعد علاقے میں پولیس کی جوابی کارروائی جاری ہے۔ پولیس کے مطابق ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں پولیس پر حملے کا مرکزی ملزم ہلاک جب کہ اس کے پانچ قریبی ساتھی زخمی ہوگئے ہیں۔

انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق واقعے میں ملوث ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ پولیس اہلکاروں پر حملے میں ملوث تمام افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔

ترجمان رحیم یار خان پولیس کے مطابق پولیس ٹیم پر حملے کے بعد کچھ ماچھکہ کے علاقے میں شروع کیے گئے آپریشن کی نگرانی آئی جی پنجاب پولیس اور ہوم سیکریٹری پنجاب کر رہے ہیں۔

پولیس ترجمان کے مطابق جوابی کارروائی میں پولیس پر حملے کا مرکزی ملزم بشیر شر ہلاک ہو گیا ہے جب کہ اس کے پانچ قریبی ساتھی ڈاکو شدید زخمی ہیں۔

جمعرات کی رات پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے علاقے کچھ ماچھکہ میں ڈاکوؤں نے پولیس اہلکاروں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنی ڈیوٹی سے واپس آ رہے تھے۔ ڈاکوؤں کے حملے میں 12 پولیس اہلکار ہلاک جب کہ آٹھ زخمی ہوگئے تھے۔

ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس کامران خان کہتے ہیں کہ یہ بڑا سانحہ اور پنجاب پولیس کا بڑا نقصان ہے۔ اس حملے میں جن لوگوں نے اپنی جانیں دی ہیں وہ رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

رحیم یار خان میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پولیس ڈاکوؤں کے خلاف حکمتِ عملی بنا رہی ہے۔ پولیس اہلکار ڈاکوؤں کو ان کی پناہ گاہوں میں اندر گھس کر ماریں گے۔

دوسری جانب پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر مقامی تاجر برادری، وکلا اور تعلیمی اداروں نے ایک روزہ سوگ منایا ہے۔ اس دوران دکانیں، کاروبار اور نجی تعلیمی ادارے بند رکھے گئے۔

ایک اہلکار لاپتہ ہونے کی اطلاعات

کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے حملے کے نتیجے میں ایلیٹ پولیس کے ایک اہلکار احمد نواز کے لاپتا ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

اہلکار کے اہلِ خانہ کے بیان کے مطابق حملے کے بعد ڈاکو احمد نواز کو اغوا کرکے لے گئے تھے۔

لاپتا اہلکار کے والد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں اسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ لیکن کوئی کچھ نہیں بتا رہا کہ ان کا بیٹا کہاں ہے؟ ان کا مطالبہ ہے کہ پولیس ان کے بیٹے کو بازیاب کرائے۔

پنجاب پولیس نے احمد نواز کے لاپتہ ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

'پولیس پر حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں'

ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس کامران خان کے مطابق کچے کے علاقے میں پولیس اہلکاروں پر حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ان کے بقول رواں ماہ کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل دو مرتبہ ڈاکو گروہوں کی صورت پر پولیس پر حملہ کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "صرف اگست کے مہینے میں پولیس والوں کی دو شہادتیں بونگ جب کہ تین راجن پور میں ہوئی ہیں۔ مگر تازہ واقعہ سب سے بڑا نقصان ہے۔"

خیال رہے کہ ڈاکوؤں کے حملوں میں بعض اوقات پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنانے کی رپورٹس بھی آتی ہیں جن کی بازیابی کے لیے پولیس آپریشن کرتی ہے۔

واقعہ کیسے پیش آیا؟

مقامی صحافی ملک ظہیر انور بتاتے ہیں کہ پولیس کے مطابق ہر جمعرات کو کچے کے علاقے میں پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی تبدیل کی جاتی ہے۔ ڈیوٹی کی تبدیلی کے دوران ہی ڈاکوؤں نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملک ظہیر انور کا کہنا تھا کہ حملے میں بچ چانے والے پولیس اہلکاروں نے انہیں بتایا ہے کہ پولیس کی دو گاڑیاں واپس آرہی تھیں جن میں سے ایک راستے میں گزشتہ دنوں ہونے والی بارش کے باعث ہونے والی کیچڑ میں پھنس گئی۔

واقعے میں آٹھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
واقعے میں آٹھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پھنسی ہوئی پولیس گاڑی کو نکالنے کے لیے دوسری گاڑی کے اہلکار بھی کوششیں کرنے لگے۔ اسی اثنا میں ڈاکوؤں نے اچانک پولیس پر حملہ کردیا۔

ملک ظہیر کہتے ہیں کہ بچ جانے والے اہلکار کے مطابق حملے میں پہلے راکٹ پھینکا گیا جس کے بعد اچانک شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حملہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ پولیس اہلکاروں کو سنبھلنے اور جوابی کارروائی کا موقع نہیں مل سکا۔

ڈیڑھ سال سے جاری آپریشن

کچے کے علاقے میں پولیس کا ڈاکوؤں کے خلاف یہ پہلا آپریشن نہیں۔ اس سے قبل موجودہ وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی جب قائم مقام وزیرِ اعلیٰ پنجاب تھے تو کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس کی نگرانی کے لیے وہ خود بھی وقتاً فوقتاً کچے کے علاقے میں جاتے رہے ہیں۔

ماضی میں بھی مختلف حکومتوں نے مختلف ادوار میں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشنز کیے ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی کامران خان کے مطابق کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ سال سے آپریشن چل رہا ہے جس میں پولیس کو کامیابیاں بھی ملی ہیں اور ڈاکوؤں کو نقصان پہنچا ہے۔

ان کے بقول پولیس نے یکم اگست کو ایک کارروائی میں چار ڈاکو ہلاک کیے تھے۔

کچے کا علاقہ

صحافی ملک ظہیر انور کہتے ہیں کہ کچے کا علاقہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے تقریباً 100 کلو میٹر جنوب سے شروع ہو جاتا ہے جو ریتلے علاقوں پر مشتمل ہے۔

ان کے بقول کچے کا علاقہ پاکستان کے تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں نہ صرف تینوں صوبوں کے ڈاکو آپس میں رابطے میں رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔

ظہیر انور نے کہا کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے پاس جدید ہتھیار اور فون ہیں جو تینوں صوبوں میں کارروائیاں کرکے اپنے علاقے میں جا کر چھپ جاتے ہیں۔

کچے کے علاقے میں آپریشن کی کامیابی سے متعلق ایڈیشنل آئی جی پنجاب نے کہا کہ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں روپوش ڈاکو آکر چھپتے ہیں جن میں سے بیشتر سندھ سے آتے ہیں اور یہاں آکر کارروائیاں کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تینوں صوبے مل کر ایک مشترکہ آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس میں صوبائی پولیس کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد بھی لی جائے گی۔

یہ آپریشن شروع کب ہوگا اور کب ختم ہوگا؟ اس بارے میں ایڈیشنل آئی جی کامران خان نے کچھ نہیں بتایا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ آپریشن کو ایک مکمل ہوم ورک کر کے شروع کیا جائے گا جس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی کے مطابق ماضی میں بھی منصوبہ بندی کے تحت ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیے ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تینوں صوبوں کی سرحد ہونے کے باعث اس علاقے میں ڈاکوؤں کی رسائی بہت آسان ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مون سون کے سیزن میں دریاؤں میں پانی کی آمد بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے پولیس اہلکاروں کے لیے محدود وسائل کے باعث ان علاقوں میں جانا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایک سوال کا جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ دوسری وجہ اِس علاقے میں کماد (گنا) کی فصل ہے جو کہ 10 سے 12 فٹ اونچی ہوتی ہے جس میں ڈاکو چھپ جاتے ہیں اور فصل میں ڈاکوؤں کو ڈھونڈنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔

کامران خان کے مطابق تازہ حملے میں بھی ڈاکوؤں نے کماد کی فصل کا فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ وہاں پہلے سے موجود تھے۔ پولیس اہلکاروں کی شفٹیں تبدیل ہو رہی تھیں، پہلی ٹیم چلی گئی تھی اور دوسری آ رہی تھی کہ گنے کی فصل میں چھپے ڈاکوؤں نے پولیس پارٹی پر اچانک حملہ کر دیا۔

ایڈیشنل آئی جی پنجاب نے کہا کہ کسی کالعدم تنظیم نے پولیس پر حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ البتہ ان کی ابتدائی معلومات کے مطابق یہ حملہ 20 سے 25 ڈاکوؤں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے کیا ہے۔

ان کے بقول ان افراد کے خلاف پولیس بھی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو کہ فی الحال ذرائع ابلاغ کو نہیں بتائی جا سکتی۔

فورم

XS
SM
MD
LG