رسائی کے لنکس

رحیم یار خان: ڈاکوؤں کے حملے میں ہلاک اہلکاروں کی تعداد 12 ہوگئی، مرکزی ملزم کو ہلاک کرنے کا دعویٰ


  • کچے کے ڈاکوؤں نے جمعرات کو پولیس اہلکاروں پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا۔
  • ڈاکوؤں نے حملہ اس وقت کیا جب سیلاب سے متاثرہ کھیتوں سے گزرتے ہوئے ایک گاڑی خراب ہوگئی تھی: پولیس
  • پولیس نے ایک ڈاکوؤں کے لیڈر بشیر شر کو ہلاک کیا ہے: آئی جی پنجاب کا دعویٰ
  • کچے کے علاقے کے ڈاکو اکثر پنجاب اور دیگر حصوں میں ہائی ویز پر سفر کرنے والوں سے لوٹ مار کرتے ہیں۔

ویب ڈیسک — پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں کچے کے ڈاکوؤں کے حملے میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی نمازِ جناہ جمعے کو ادا کر دی گئی ہے۔

رحیم یار خان کے پولیس لائنز میں جمعے کو نو پولیس اہلکاروں کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی جس میں وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور دیگر حکام نے شرکت کی۔

پولیس کے مطابق جمعرات کو ڈاکوؤں نے پولیس پر گھات لگا کر اس وقت حملہ کیا تھا جب سیلاب سے متاثرہ کھیتوں سے گزرتے ہوئے اہلکاروں کی ایک گاڑی خراب ہوگئی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں نے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس پر حملہ کیا۔ حملے میں آٹھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق حکام نے جمعے کو بتایا کہ ڈاکوؤں کے حملے میں زخمی ایک اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا جس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 12 ہوگئی۔

ایک بیان میں پولیس نے کہا کہ "پولیس کا حوصلہ بلند ہے اور ڈاکوؤں کی ایسی بزدلانہ کارروائیاں پولیس کے حوصلے پست نہیں کرسکتیں"

دریائے سندھ کے کنارے کچے کے علاقے کو ڈاکوؤں کے خفیہ ٹھکانے کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہاں ماضی میں بھی پولیس اور ڈاکوؤں کے دوران مقابلے ہوتے رہے ہیں۔

پنجاب پولیس کے سربراہ عثمان انور نے کہا ہے کہ پولیس نے ڈاکوؤں کے ایک لیڈر بشیر شر کو ہلاک کیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس حملے کے پیچھے تھا۔

پولیس نے تعاقب کے دوران پانچ دیگر ڈاکوؤں کو زخمی کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

عثمان انور نے ایک بیان میں کہا کہ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری ہے اور صوبے سے آخری ڈاکو کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔

کچے کے علاقے کے یہ ڈاکو اکثر پنجاب اور دیگر حصوں میں ہائی ویز پر سفر کرنے والوں سے لوٹ مار کرتے ہیں۔ جب کہ کچھ علاقے تو اتنے خطرناک ہیں کہ لوگ لوٹ مار سے بچنے کے لیے غروبِ آفتاب کے بعد وہاں سے سفر سے گریز کرتے ہیں۔

اگرچہ پولیس نے زیادہ تر نام نہاد "نو گو ایریاز" کو کلیئر بھی کر لیا ہے۔

سینئر دفاعی تجزیہ کار عبداللہ خان کے مطابق پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے والے ڈاکو بندوقوں، راکٹوں، دستی بموں اور پستولوں سے لیس تھے۔

انہوں نے اے پی کو بتایا کہ یہ ہتھیار حالیہ برسوں میں افغانستان سے پاکستان اسمگل کیے گئے تھے اور یہ ڈاکوؤں کے پاس بھی موجود ہیں۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG